Thursday, September 13, 2018

تعلیمی نظام --- ہونا کیا چاہئیے ـــ (تیسری قسط) ہمایوں مجاہد تارڑ


ترقی یافتہ دنیا کے تعلیمی نظام پر ایک سرسری سی نگاہ ڈال کر دیکھ لیں۔ اندازہ ہو جائے گا کہ چند ایک فیچرز جنہیں بلاتردّد، اور بِلا قیمت فی الفور اپنایا جا سکتا ہے، وہ کیا ہیں۔ دو روز پہلے میری لینڈ (امریکہ) میں مقیم ایک پاکستانی بہن سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ خلاصہ پیشِ خدمت ہے ـــ اِس اپیل کیساتھ کہ وطنِ عزیز میں جو کوئی بھی ایجوکیشن فیلڈ میں ہے، جہاں بھی ہے، حسبِ مقدور اِن خصوصیات کو کسی طور ایڈجسٹ کرنے اور کرانے کی کوشش کرے۔ اور نہیں تو آس پاس میں موجود ہم پیشہ لوگوں سے ان پر بات کرے۔ بات سے بات بنتی، پھیلتی، رفتہ رفتہ سماج اندر سرایت کرتی ہے۔ احباب سے گذارش ہے یہاں شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد کو ٹیگ کر دیں۔ کون جانے، کس گلی محلّے کے کس ادارے میں کچھ بچوں کی زندگیاں قدرے آسان ہو جائیں! 
نرسری اور کِنڈرگارٹن کی سطح پر تو ہمارے یہاں بھی اکثر سکولز میں ایکویٹی بیسڈ پروگرام ہی چلتا ہے۔ تاہم، گریڈ 2 اور اس سے اوپر کے گریڈز میں کتابوں اور کاپیوں سے ٹھنسے بھاری بستوں کی لعنت شروع ہو جاتی ہے۔ گریڈ فور کے بچے کا بیگ ایک نظر دیکھیں، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ دنیا کے سکولز میں جیسے کینیڈا، انگلینڈ، جاپان، فِن لینڈ، میری لینڈ وغیرہ میں بھاری بستے کا کوئی رواج نہیں۔ خیر، امریکی ریاست میری لینڈ کی بات کرتے ہیں۔ جس بہن سے بات ہوئی، وہ منٹگمری کاؤنٹی میں مقیم ہیں اور خود بھی شعبہِ تعلیم سے وابستہ ہیں۔
سکول کا آغاز صبح 9 بجے ہوتا ہے۔ بچوں کے لئے چیک اِن ٹائم 8:45 ہے۔
بچے ناشتہ سکول میں ہی کیا کرتے ہیں۔ وہاں فنڈز چونکہ زیادہ ہیں، اس لئے ایجوکیشن اور کھانا پینا فری ہے۔
ایک کلاس میں دو یا اس سے زیادہ ٹیچرز بھی بیک وقت موجود ہو سکتے ہیں تا کہ چیلنجنگ بچوں کو توجہ دی جا سکے۔ کم سے کم بھی ایک عدد اسسٹنٹ ٹیچر تو ضرور ہی ہوتا یا ہوتی ہے۔
سبجیکٹ ٹیچر کو ایک عدد نصابی کتاب ضرور مہیا کی جاتی ہے۔ تاہم، اسے مکمّل آزادی ہے کہ کوئی ٹاپک پڑھانے کو وہ جو چاہے ذرائع استعمال کرے۔
چھوٹی کلاسز جیسے گریڈز وَن، ٹو، تھری کی سطح پر بچوں کو اخلاقیات اور ادب آداب سکھانے پر زور ہے۔ نیز، آرٹس، میوزک، لائبریری میں پڑی رنگا رنگ کتابوں پر بات چیت، نمبرز کے بنیادی تصورات پر تھوڑا فوکس، کھیل اور بس۔ سائنس، میتھ، جیو گرافی، اسلامیات، سوشل سٹڈیز وغیرہ کو بھاری بھرکم سبجیکٹس کے بطور پڑھانے، کاپیاں بھرانے، ہوم ورک دینے، امتحان لینے اور ان امتحانات کے لئے رٹے لگوانے کا وہاں بالکل بھی تصور نہیں۔ ان سب مضامین کو ٹچ دیا جاتا ہے، تاہم سکول کی سطح تک ہی، اور ہلکے پھلکے انداز میں۔
بچے کے بیگ میں ایک آدھ سٹوری بُک اور ہوم ورک کے بطور ملی ایک یا دو عدد فوٹو کاپی والی شیٹس پڑی مل جائیں گی۔ باقی سب کچھ سکول میں ہی رکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی والدین خود خواہش رکھتے ہوں تو اپنے بچے کے لئے اضافی ہوم ورک طلب کر سکتے ہیں۔
ہر ٹاپِک یا ایکٹیویٹی کے بعد ہر سکِل کی assessment ہوتی ہے، ایک عدد چھوٹے سے کوئز کی صورت، لیکن ماہانہ، سہ ماہی، اور سالانہ امتحانات نہیں دئیے جاتے۔ گریڈ سِکس، سیون، اور 8 تک ایسا ہی ہے۔ نتیجتاً بچے سٹریس فری ماحول میں پڑھتے اور انجوائے کرتے ہیں۔
یہ بہن جس کاؤنٹی میں مقیم ہیں وہاں جنوبی امریکہ سے آئے Spanish بچوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ ایسے بچوں کو انہی کی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے نہ کہ ان پر انگلش میڈیم ٹھونس دیا جائے۔ البتہ انگلش کے لئے ایک عدد کلاس الگ سے دی جاتی ہے۔ یعنی مجموعی طور پر میڈیم آف انسٹرکشن بچوں کی اپنی زبان!
بچوں کو سکول کی صفائی ستھرائی میں خوب اِنوالو کیا جاتا ہے (جو کہ جاپانی نظامِ تعلیم کا بھی نمایاں ایک فیچر ہے)، نیز انہیں استعمال شدہ کاغذ اور پلاسٹک کی بوتلیں رِی سائیکل کرنے پر بھی لگایا جاتا ہے۔
باصلاحیت بچوں کے لئے ایک عدد سپیشل کلاس کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں انہیں زیادہ چیلنجنگ سیچوئیشنز کیساتھ آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں تا کہ حسبِ استعداد انہیں زیادہ گرو کرنے کا چانس ملے چونکہ ایسے بچے نارمل slow paced learningسے بور ہو جاتے ہیں۔ یوں، ایسے بچوں کو الگ سے پالش کرنے، اور اُن کی inventive genius کو جِلا دینے کا اہتمام ہر ادارے کو کرنا چاہئیے، نہ کہ سب بچوں کو ایک ہی بینڈ ویگن میں گھسیڑ دیا جائے۔
روایتی طرز تعلیم و تدریس والے ایسے ماحول کی وہاں کوئی گنجائش نہیں کہ ایک کلاس میں سب بچے ایک ہی کتاب کھول کر بیٹھ جائیں اور پھر چپ چاپ استاد صاحب کی بورنگ گفتگو سنتے رہیں۔ بلکہ کوئی چھوٹی موٹی ویڈیو دکھا کر، یا ایک عدد driving question دے کر بچوں کو خود ایکسپلور کرنے کی راہ پر ڈالا جاتا ہے۔ بس نگرانی اور مدد کی جاتی ہے۔ بعض اوقات بچوں کو اپنی findings پیش کرنے کو صرف گروپ ڈسکشن تک محدود رکھا جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر انہیں کتابوں، رسائل، اور انٹرنیٹ تک رسائی دی جاتی ہے۔
بچوں کو گروپ ڈسکشن کی غرض سے دئیے گئے ٹاپِکس اس طور منتخب کئے جاتے ہیں کہ بچے agree یا disagree کریں تا کہ اُن کی فکری اور تجزیاتی قوت میں اضافہ ہو۔
والدین کو بچوں کے تعلیمی عمل میں ملوّث ہونے اور رہنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ وہاں کے والدین بس PTM یعنی Parents Teachers Meeting تک محدود نہیں رکھے جاتے جیسا کہ ہمارے یہاں کے والدین ماہانہ یا سہ ماہی امتحان کے بعد رزلٹ لینے آجاتے ہیں، وہ بھی چند منٹوں کے لئے، بلکہ وہاں PTA یعنی Parents Teachers Association کا رواج ہے۔ والدین بچوں کی لرننگ میں رضاکارانہ مدد کیا کرتے ہیں۔ کوئی کیمپ لگا ہو یا کوئی کلب ایکٹویٹی برپا تو وہ باری باری ڈیوٹی دیا کرتے ہیں۔ یا فنڈ ریزنگ پروگرام میں، اور پراجیکٹس میں جو parent جس حد تک بھی اثر انداز ہو سکے رضا کارانہ اپنا تعاون پیش کیا کرتا ہے۔ گویا ایک کمیونٹی بن کر رہنے کا چلن۔ ایک دوسرے کی ضرورتوں سے آگاہ رہنے، مدد کرنے اور یوں ایکدوسرے کی خوبیوں اور مہارتوں سے مستفیض ہونے والا ماحول۔
یہی وجہ ہے کہ شام کو اکیڈمی اور ٹیوشن کا وہاں کوئی سکوپ نہیں۔ جن بچوں کو کسی سبجیکٹ میں ایکسٹرا کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بہرصورت سکول کے اندر ہی پوری کر دی جاتی ہے۔
بچے بہ خوشی سکول جاتے اور خوش باش واپس آیا کرتے ہیں۔
لگتا ہے، میری لینڈ میں تعلیمی ماحول بہت عمدہ ہے۔ امریکہ میں بعض مقامات پر پبلک سکول ایجوکیشن اچھی نہیں ہے۔ اسی طرح، اوپری سطح پر بھی سٹیڈرڈائزڈ ٹیسٹوں نے ستیاناس کر رکھا ہے بچوں کی تعلیمی زندگیوں کا۔ ڈراپ آؤٹ بچوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا میں بیشتر مقامات پر تعلیم بچوں کے لئے ایک بے حد ناخوشگوار تجربہ ہے۔ اسی لئے میں اسے ایجوکیشنل چائلڈ لیبر کہا کرتا ہوں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر: ہمایوں مجاہد تارڑ

تعلیمی نظام ــــ ہونا کیا چاہئیے؟ --- (پارٹ 2) تحریر: ہمایوں مجاہد تارڑ

جبکہ ایک طرف ہمارے یہاں 40 اور 50 اور 70 بچوں سے لبا لب بھرے کمرہِ جماعت میں یہ قوم کُش تعلیمی نظام اِن معصوموں کو اپنے سپائڈر ویب اندر جکڑے بیٹھا ہے، اِن کی تخلیقی صلاحیتوں، اِن کی معصوم خوشیوں، توانائیوں اور جوش و خروش کو قتل کیے دیتا ہے، دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ خود ترقی یافتہ دنیا کے بعض حصّوں میں بھی بیداری کی ایک نئی لہر ہے۔ تھوڑی بہت خود ہمارے یہاں بھی۔
گذشتہ 20 بیس برسوں میں انسانی سماج میں کچھ خاص تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ٹیکنولوجیکل تبدیلیاں، اور سماجی نوعیت کی تبدیلیاں جنہوں نے باسیانِ ارض کا طرزِ زندگی یعنی لائف سٹائل بدل ڈالا ہے۔اوراِنہی تبدیلیوں نے کلاس روم میں برپا معیارِ تعلیم و تدریس پر سوالیہ نشان لگا ڈالے ہیں۔ چنانچہ یہ احساس ایک تسلسل سے بڑھا ہے کہ ہم لوگ بتدریج ایک زیادہ تر پروفیشنل لائف کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں ٹیکنالوجی کا کردار بے پناہ حد تک زیادہ ہو گا کہ ٹیکنالوجی اب ایک زندہ حقیقت ہے۔ کم خرچ بالا نشیں والا نسخہِ کیمیا ہے ـــ یعنی کم وقت زیادہ رفتار کیساتھ flawless نتائج حاصل کر لینا۔ نئی سکِلز تو ساری کی ساری اسی ٹیکنالوجی سے جڑی ہیں۔ جس فرد یا قوم نے بھی آگے بڑھنا ہے، اسے بہرصورت ٹیکنالوجی پر ہی اپنا ہاتھ بٹھانا اور اِس ہنرکاری میں دوسروں سے excel کر کے دکھانا ہو گا، ورنہ میدان کوئی اور مار لے گا۔ علمِ فلکیات (ایسٹرانومی) سے لیکر علمِ حشرات الارض (اینٹومولوجی) تک ہر ہر شعبہِ زندگی میں رفتارِ کار اب اسی سے متعیّن ہوتی ہے۔ نئی دریافتیں اور ایجادات اور اِس عمل میں رفتارِ کار اور سٹائل اور ڈیزائن سب کچھ اسی کا مرہونِ منّت۔ اس لئے تسلیم کہ ہمیں اپنے بچوں کو اِس سے دور نہیں رکھنا، اُلٹا اس کی باریک بینیوں سے آگاہ کرنے کے مثبت استعمال پر لگانا ہے کہ دنیا بتدریج artificial intelligence کی جانب بڑھ رہی ہے۔ Animation اور 3-D Printer کی قوتیں نینو ٹیکنالوجی سے مزید تقویت پا کر معجزے بپا کرنے کو ہیں۔ حیرتوں سے لدے اُس دور کی دستک دروازے پر صاف سنی جا سکتی ہے جس کی آب و تاب عنقریب ہم اپنی آنکھوں برپا ہوتے دیکھیں گے۔ یُوں، یہ بھی تسلیم کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب زندگی کے تقاضے یکسر بدل کر رہ جائیں گے۔ سینکڑوں جابز صفحہِ ہستی سے مٹ جائیں گی۔ جیسے گیس والا ہیٹر آیا تو کوئلے کی بوریاں جانور کی کمر پر ٹکا ٹکا یا اپنی کمر پر لاد لاد مختلف گھروں میں بیچنے والے مزدور کا کام ٹھپ ہو گیا، اسے الیکٹریشن بن جانا پڑا جو گیس والے چولہے ریپئر کر سکتا ہو۔ فریج کے آ جانے سے گھڑے بنانے والی صنعت دم توڑ گئی۔ بالکل اسی طرح نئی مارکیٹ، نئی دنیا کا سلسلہِ روزوشب نئی skills یا مہارتوں کا متقاضی ہو گا۔ جبکہ رواں ساعت دنیا کے متعدّد حصوں میں، بالخصوص پاکستان میں، جو تعلیمی کاروبار گرم ہے، اُس میں مستقبل کی تیاری کی کوئی خاص رمق ہمیں نظرنہیں آ رہی۔
تاہم، جو بات حوصلہ افزا ہے وہ خود اِس بیداری کی لہر کا احساس ہے۔ اور ترقی کے سفر میں احساسِ زیاں کا ہونا ہی اوّلین قدم ہے۔ آگے بڑھتے ہیں۔ میرے ساتھ رہئیے! 
آج جب Future Schooling کی بات چھڑتی ہے تو ہماری فکر اس نکتہ پر مرکوز ہو جاتی ہے کہ اب سے آگے 40 یا 50 برسوں بعد تعلیمی ادارے کیسے ہوں گے؟ حالانکہ اِس سے کہیں درجہ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ گذشتہ ایک صدی میں تعلیم وتدریس نے فاصلہ کس قدر طے کیا، یعنی جب سے اِس نوع کی ماڈرن سکولنگ کا آغاز ہوا ـــــ یعنی 1837 میں جب امریکی ریاست میسا چُوسٹ کے ہوریس مَین نے اس طرز کے پہلے سکول کی بنیاد رکھی جس میں تعلیم کے بنیادی مواد کو منظّم نصاب کے بطور پیشہ ور اساتذہ کے ہاتھوں پڑھایا جانے لگا۔ ہوریس مَین میسا چُوسٹ کا تب سیکریٹری آف ایجوکیشن تھا۔ تخلیقی آدمی تھا۔ اگرچہ تھوڑا آگے چل کر اِس ماڈرن ورژن آف سکول سسٹم پر بھی کچھ مغربی ریفارمرز زوردار انداز میں اثر انداز ہوئے، جیسے پیسٹا لوزی، ہربرٹ اور مشہورو معروف مِس مونٹے سوری جن کے نام کی نسبت سے ایک پورا Montessori System شرق و غرب میں پھیل گیا۔
لیکن واپس مڑ کر دیکھیں تو ایک بات پریشان کئے دیتی ہے۔ اِس تحریر کے ساتھ جو تصویر بلیک اینڈ وائٹ میں ہے، وہ سٹریتھ کلائڈ پرائمری سکول، گلاسگو، یعنی سکاٹ لینڈ کی ہے۔ یہ 1918 کے زمانے کی تصویر ہے۔ کمرے میں کشادہ کھڑکیاں اور فینسی لائٹس تک نظر آرہی ہیں۔ سافٹ بورڈ اور الیکٹرانک بورڈ بعد کی پیداوار ہیں۔ یہ اُس زمانے کا جدید نظامِ تعلیم تھا جسے اب ہم ایک روایتی طرزِ تعلیم کہا کرتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ہاں بیشتر گورنمنٹ سکولز میں، حتٰی کہ ہزاروں پرائیویٹ اداروں میں بھی ـــ آج بھی ـــ بس یہی ماحول ہے۔ میں اور آپ، ہمارے والدین، اور ان کے والدین انہی اداروں میں پڑھ لکھ کر جوان ہوئے۔ پچھلے کچھ برسوں میں اضافہ اگر کچھ ہوا تو بس مارکر والے وائٹ بورڈ کا۔ الیکٹرونک بورڈ بعض بِگ برانڈ اداروں نے بھی نہیں لگا رکھے ــــ جیسا کہ آپ رنگین تصویر میں دیکھتے ہیں جس میں ٹیچر نے بورڈ پر پاور پوائنٹ پریذنٹیشن کھول رکھی ہے۔
لیکن یہاں بحث ٹیکنالوجی کی integration کی نہیں ہے۔ اِن سب سکولوں میں futuristic feel اب بدرجہ اتم موجود ہے ــــ کہ آئی پیڈ، کمپیوٹ، سافٹ بورڈ اور الیکٹرونک بورڈ وغیرہ کا استعمال کیا جائے۔ جو شے اِن تمام برسوں میں بدل کر نہیں دے رہی وہ کچھ اور ہے۔ یہ آرٹیکل جس مقصد کے لئے لکھا گیا ، وہ نکتہ ہی کچھ اور ہے۔ وہ وِژن کیا ہے؟
وہ یہ ہے کہ اِس سارے سازوسامان اور تعلیم و تدریس کے عمل کے بیچ، اِس عمل کی مرکزی شخصیت یعنی خود بچّے کو ہم کس انداز اور زاوئیے سے دیکھتے ہیں۔
اِس اعتبار سے پچھلی ڈیڑھ صدی میں جو phenomenon مستقلاً چھایا رہا ہے اور آج کے جدید تعلیمی ماحول پر بھی غالب اور برابر مسلّط نظر آتا ہے وہ بچّے کو جبراً کچھ طے شدہ مواد پڑھائے جانے کا ہے۔ یعنی اُس پر ٹھونسے جانے والے انداز میں۔ اِس پر مستزاد، مواد کا اپنی مادری زبان میں نہ ہونے کا عذاب ہے ـــ اگرچہ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا، اور خود میرا اپنا ایک آرٹیکل بھی موجود ہے۔
جب ہم جدید نظامِ تعلیم اور مستقبل کی بات کرتے ہیں تو بدقسمتی سے ہم ٹیکنالوجی، گیجٹس، ایپس، سسٹمز، جابز، کیریئر کی بات کرنے لگ جاتے ہیں۔ بلاشبہہ اِن کی اہمیت اپنی جگہ ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ تاہم، مستقبل کے حوالے سے تعلیمی عمل میں اصلاحات کو ٹیکنولوجیکل سازوسامان اور کلاس روم کی مزید furnishing سے جوڑنا غلط ہے۔ بیچ کا اصل کام وہیں پڑا رہ جاتا ہے ـــ یعنی بچّہ۔ سوچنا یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اُن کی سماجی، جذباتی اور ادراکی اعتبار سے کیسے بہتر بنائی جائے۔ اِس ضمن میں ایک افسوسناک صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ دنیا اِس حوالے سے گویا ایک نفسیاتی پاگل پن کا شکار ہے۔ کیسے؟
بچے کی ادراکی، سماجی، اور جذباتی ضرورتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اُسےوہی پرانی والی بے رحم رُوٹین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اُس بچّے سے کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ کیا پڑھنا چاہتا ہے؟ کیسے پڑھنا چاہتا ہے؟ کیا سیکھنا چاہتا ہے؟ کیسے سیکھنا چاہتا ہے؟ وہ کیا جاننا چاہتا ہے؟ اسے کیا اچھا لگتا ہے؟ اگر آج کا ٹائم ٹیبل وہ خو د بنائے تو کیسا ہو گا؟ پہلے کیا پڑھنا چاہے گا؟ کب اور کیا کھیلنا چاہے گا؟ سکول اور ٹیچر کو کس حد تک اس بچّے کی زندگی dictate کرنی چاہئیے؟
جی ہاں، یہ زیادہ اہم سوالات ہیں۔ جدید طرزِ تعلیم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انفرا سٹرکچر اِمپروو کر لیا جائے اور بس! غلطی سے، عمارت کا رنگ رُوپ بدل ڈالنے اور اُس اندر کچھ جدید آلات نصب کر دینے کو جدید نظامِ تعلیم سمجھ لیا گیا ہے۔ دِلی معذرت، ایسا نہیں ہے۔ آپ کا سٹاف کسی برٹش کونسل سے ٹریننگ لے کر آ گیا ہے۔ بھلے ہارورڈ یونیورسٹی کا چکر ہی کیوں نہ لگا آئے۔ یہ جدید نظامِ تعلیم نہیں ہے۔ یا یہ کہ آپ کی کتب کا مواد درسِ نظامی والوں سے زیادہ اپ ڈیٹڈ ہے؟ آپ نے کیمبرج اور آکسفورڈ کی کتابیں لگا رکھی ہیں؟ یہ سب اچھا ہے، خوب اچّھا، لیکن خود بچّے کو دیکھنے کا ہماراانداز اگر نہیں بدلا، تو یقین جانیں کچھ نہیں بدلا۔ اور ہم اب بھی کُہنہ سال روایتی طرزِ تعلیم یعنی traditional schooling کی بند گلی میں سے باہر نہیں آئے۔
تو بات یہ ہے کہ بِلڈنگ نہیں، مائنڈ سیٹ بدلنے سے سسٹم بدلے گا۔
مائنڈ سیٹ کس کا؟
ٹیچر کا، والدین کا، ایڈمنسٹریشن کا، حکومت کا ــــ سب سٹیک ہولڈرز کا جو بچے کو تعلیم دینے کے عمل میں اِنوالو ہیں۔
بچّے کی حیثیت سارے سسٹم میں مرکزی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ بچے کو تعلیم دینے کی خاطر ہی تو کِیا جا رہا ہے۔ مجھے اصرار ہے کہ ایسا نہیں ہے!
یہ اہم کام ہم لوگ نہیں کر رہے۔ تعلیمی ادارے نہیں کر رہے۔ وژنری ماہرینِ تعلیم کی آنکھیں بھی اِس اعتبار سے بند نظر آتی ہیں۔ یقین جانیں ہم لوگ کوئی نئی شے اختراع نہیں کر رہے! تعلیمی نظام میں اِمپروومنٹ کا مطلب غلطی سے بس یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ:
اُسی رویتی طرزِ تدریس کو ذرا زیادہ digitalize کر دیا جائے۔
ٹیچر یا معلّم کو جو مواد کتاب میں سے پڑھ یا پڑھوا کر explain کرنا تھا، اب وہ سمارٹ بورڈ پر دکھا سکتا ہے۔
ورک شیٹس بھی اسی الیکٹرونک بورڈ پر دکھا کر زبانی یا تحریری جواب طلب کر سکتا ہے۔
لکھنے کے تردّد سے نجات مل گئی۔ وقت کی بھی بچت ہوئی۔
نیز، ڈائیاگرام وغیرہ دکھانے کا عمل بھی آسان ہو گیا۔
اسی طرح بچّے کی سطح پر بھی ٹیب اور لیپ ٹاپ نے وقت بچا لیا (اگرچہ ہمارے یہاں سکولز کی سطح پر ٹیب، یا فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ لیجانےکی اجازت نہیں ہے کہ اِس میں مسائل ہیں۔ یعنی بیشتر سکولز میں کمپیوٹر کا استعمال بس کمپیوٹر لیب تک محدود ہے)۔
کمرے ایئر کنڈیشنڈ ہو گئے۔
سکول گیٹ پر حاضری لگانے کوthumb impression والی مشین نصب کر دی۔
انٹرنیٹ کی سہولت ادارے کے درودیوار میں عام ہو گئی۔۔۔۔ وغیرہ۔
بچّے کے لئے وہی dull روٹین ہے اور بس! نظام کا ناک نقشہ نہیں بدلا، صاحب۔ بلکہ اس کے وجود پر چڑھے کپڑے بدل دئیے گئے۔
نظام اپنی سپرٹ میں بعینہ وہی ہے جو ساٹھ برس پہلے رائج تھا۔ کیسے بدلے گا، کیا کرنا ہو گا؟ اگلی قسط میں، انشااللہ۔
پہلے ذہنوں پر طاری یہ گردوغبار جھاڑنا ضروری تھا۔

Friday, May 25, 2018

بچوں کی تعلیم و تربیت – قسطِ اول

تحریر: ہمایوں مجاہد تارڑ
روزمیری وارڈ لبری نام کی یہ 60 سالہ امریکن خاتون اب میڈ فورڈ (نیو جرسی) میں مقیم ہیں۔ پہلے یہ فلے ڈیلفیا میں رہا کرتیں۔ مشہور آن لائن میگزین Quora Digest پر اس عظیم خاتون کے تعارف میں جلی حروف میں لکھا ہے:
چیمپئین ہوم ایجوکیٹر آف فورسکالرز
یعنی Rosemary اپنے چار بچوں کی کامیاب ہوم سکولنگ کرنے، انہیں فی الواقع 'سکالرز' بنا کر اس competitive worldکے پلیٹ فارم پر لانچ کرنے، انہیں بہ صد اعتماد اپنے اپنے فیلڈ میں تگ وتازِ حیات کرنے کے قابل بنانے کا سو فیصد کریڈٹ لیے ہوئے ہیں۔ یہ خاتون، عمومی امریکن کلچر کے برعکس، اِس اعتبار سے بھی ایک سُوپر کامیاب اور خوش قسمت خاتون ہیں کہ اپنے اولین، پہلے، واحد شوہر کیساتھ ایک ہی شادی کی گاڑی پر سوار عمر ِعزیزکا یہ پُل عبور کیے بیٹھی ہیں۔اِس کا کریڈٹ بھی بظاہر انہی کو جاتا دِکھائی دیتا ہے کہ اِن کے ہَز بینڈ کی کوئی contact details ہمیں سرِ دست دستیاب نہیں۔
خیر، Quora ڈائجسٹ پر جب کوئی صاحب سوال پوسٹ کرتے ہیں تو اُس کے لیے ایکسپرٹ آنسر لکھنے والوں میں روز میری کا شمار خاص ماہرین میں ہوتا ہے۔ یہ اب تک 723 جوابات لکھ چکیں، اور اِن کے ایکسپرٹ آنسرز کے views لاکھوں میں ہیں۔
اب چونکہ یہ ایک رول ماڈل ہیں، اور تربیتِ اطفال کے باب میں بہاؤ کی مخالف سمت چل کر دکھاچکیں، اِن کی رائے قابلِ صد احترام ہونی چاہئیے کہ جو کچھ کہا یا بولا جاتا ہے، وہ اِن پر بیت گیا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ایسی moms اور ایسے dads کی اب اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو اِس تجربہ کو مزید سندِ تصدیق فراہم کرتی ہے۔ خود امریکہ میں اس گزرتی ساعت کوئی دو ملّین یعنی 20 لاکھ بچے ہوم سکولنگ کےتجربے سے گزر رہے ہیں جہاں ہوم سکولنگ کو باقاعدہ سرکاری طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے اور اس سے متعلق کافی حد تک sources اور سپورٹ خود سرکار مہیا کرتی ہے۔ امریکہ کے طول و عرض میں ایسی بے شمار کہانیاں بکھری پڑی ہیں جِن پر لکھے - دیگر والدین کے لیے مینارہِ نور بنے - سینکڑوں بلاگز بہ آسانی دستیاب ہیں ۔
ہم بتدریج ایک پروگرام کی طرف بڑھیں گے جِس خاطر یہ بیک گراؤنڈ دینا بے حد اہم تھا (اور اہم رہے گا کہ بعد کی اقساط میں بھی بیک گراؤنڈ والی تفصیل مزید آئے گی)۔ یہ میرا ایک پراجیکٹ تھا جس کے خدوخال اب مکمل ہو چکے، اور جس کے لانچ ہونے سے قبل اِس کی تفصیل کا یوں شیئر کیے جانا اس لیے ضروری ہے کہ جس کسی کو بھی ناچیز کا ہمرِکاب ہونا ہے، ساری بات خوب تفصیل میں سمجھ لے۔
روز میری وارڈ لبری کی ایک پوسٹ کیمطابق (نیز گوگل کرنے سے بھی یہ انفارمیشن بہ آسانی دستیاب ہے) امریکہ کے نیشنل ہوم ایجوکیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے جب سروے کیا کہ آیا ہوم سکولنگ کے تحت تعلیم پاتے بچوں کی قابلیت ریگولر سکولنگ والے بچوں کے مقابلہ میں کمتر ہے یا کیسی جا رہی، تو حاصل کردہ اعدادو شمار خاصے حیران کن تھے۔یہ ہوم ایجوکیٹڈ بچے جن سٹینڈرڈائزڈ ٹیسٹس میں appear ہوئے، ریگولر سکولنگ والے بچوں سے consistently بہتر رزلٹس لیکر آئے۔ اِن کی رائٹنگ سکِلز ، وسعتِ مطالعہ، وژن وخود اعتمادی وغیرہ اُن سے کئی گنا بہتر تھیں۔ مثلاً SAT Test میں اِن کے سکورز مسلسل بہتر جارہے ہیں۔ ہوم سکولنگ کے پانچ سات برسوں میں جتنی کتابیں اِن بچوں نے ہضم کیں، ریگولر سکولنگ والے اُس کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ریگولر سکولنگ تو بس ایک چل چلاؤ کا نام ہے۔
روز میری وارڈ سے کسی نے پوچھا ہے، آپ نے اپنے بچوں کی سیلف لَرننگ کا پروگرام کس طور نبھایا؟
جواب ملا: میرے اس پروگرام کے خدو خال کچھ یوں رہے:
1- میں نے انہیں سکول نہیں بھیجا۔
2- میں نے انہیں اس لگے بندھے لازمی نصاب سے بھی دور رکھا۔
3- بلکہ ہمارے گھر میں سیکھنے کی قدروقیمت کا جاننا اور اس پر عمل پیرا رہنا ہی سب کچھ تھا۔ اس پر ہمارے یہاں دن رات بات ہوا کرتی۔ حصولِ علم بذریعہ مطالعہ کی promotionکے رول ماڈل خود میں اور میرے شوہر تھے۔ بتدریج گھر کتابوں اور رسالوں سے بھر دیا گیا۔ ہر وقت کتابیں پڑھی جا رہی ہوتیں، اور کتابوں پر تبصرے کیے جا رہے ہوتے۔ بُک ریڈنگ کو بچوں کے روبرو ہم لوگوں نے اعلٰی ترین قدر کے بطور پیش کیا۔ یُوں، یہ قدر یا value از خود بچوں کی رگ رگ میں سما گئی۔
4- الیکٹرونک ڈیوائسز کا استعمال سخت محدود رکھا گیا۔
5- بچوں میں جو رویے پنپتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے، اُن کا خود اپنے طرزِ عمل کے ذریعے بھرپور مظاہرہ، بے لچک مستقل مزاجی اور پابندی کیساتھ کیا گیا۔ اِس باب میں ریڈنگ کرنا سرِ فہرست رہا۔ یہ ریڈنگ کلچر آج بھی جاری و ساری ہے۔
6- امتحان یا ٹیسٹ ویسٹ کی خِفت سے کامل دوری۔ یہ بچے کے فطری تجسس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔یعنی اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ وہ فطری تجسس جس کے بطن سے از خود تحصیلِ علم یعنی self-directed learningپروان چڑھتی ہے، یہ اس کا قاتل ہے۔(بطور استاد میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ ٹیسٹ کلچر بچے کی نفسیات کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔یہ صریحا ًہمت شکن عمل ہے۔)
7- بیسیوں میوزیم ٹرِپس۔ خوب ڈھیروں آؤٹ ڈور ایکسپلوریشن outdoor explorationاور خوب ڈھیروں سفر۔ اس سفر میں بھی رِیڈنگ۔ اور ریڈنگ کے علاوہ اپنے مشاہدات کو قلم بند کرنے، دیکھے ہوئے کو ڈسکرائب کرنے کا جوش و خروش۔
8- وقفے وقفے سے ٹاپ یونیورسٹیز کے وزٹس۔ حتی کہ جب وہ ایلیمنٹری سکولنگ کی سطح پر تھے، تب سے۔ اس کا مقصد انہیں موٹی ویشن فراہم کرنا تھا کہ زیادہ ریڈنگ کیا معنے رکھتی ہے، اور انہیں آخرِ کار کس ٹارگٹ پر لینڈ کرنا ہے۔
9- بچے جب 6 گریڈ کی سطح تک آ گئے تو ان میں سے ہر ایک کو اِس Great Courses سیریز میں سے گزارا گیا:
''سُوپر سٹار سٹوڈینٹ کیسے بنا جائے؟'' یہاں اس سیریز کا ایک لِنک مہیا کیا گیا ہے۔
10-گھر میں اس کلچر آف لَرننگ کو پروان چڑھانے میں ورائٹی کا پورا اہتمام رکھا گیا۔ یعنی رِیڈنگ کے علاوہ شطرنج، دیگر دماغی قوت بڑھانے والی گیمز، کُوکنگ، پَزلز، بِلڈنگ ٹُولز، آرٹ وغیرہ کا خوب اہتمام رکھا گیا۔
11-میں پھر کہوں گی کہ سکرین کا استعمال محدود رکھنا ہماری خاص ترجیحات میں رہا۔ ہم اس میں پوری طرح کامیاب ہوئے، چونکہ ہم پوری طرح اِنوالو تھے۔موبائل فون، آئی پیڈ وغیرہ ایسے شیاطین کو خوب باندھ کر رکھا گیا۔
گویا ہوم سکولنگ ایک پورا لائف سٹائل ہے۔ جس کسی نے اسے اپنانا ہے، خوب سوچ سمجھ کر، تول پرکھ کر فیصلہ کرے۔ احسان دانش مرحوم کا ایک شعر یاد آیا جو استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر اپنے لیکچرز میں quoteکیا کرتے ہیں:
یونہی دنیا کے لیے ایک تماشا نہ بنے
جس کو بننا ہو سمجھ سوچ کے دیوانہ بنے
روز میری وارڈ کا کہنا ہے، والدین کو عملا وہ سب کچھ کرنا ہو گا ، اس سارے عمل میں سےخود ہوگذرنا ہو گا جو وہ اپنے بچوں کو کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک عظیم کمٹمنٹ ہے، اور اسے نبھانے کی ایک قیمت ہے جو آپ کو ادا کرنا ہو گی۔ یہ unwilling parents کے کرنے کا کام نہیں۔ یہ جاب، یہ عظیم پراجیکٹ بلا کی منصوبہ بندی، مستقل مزاجی اور کمٹمنٹ کا متقاضی ہے، نہ کہ دوچار روز کا جوش و خروش۔
روز میری وارڈ کا یہ سفر بیس برس پیشتر شروع ہوا تھا۔ پوچھا گیا کہ اب آپ کے بچے کس سٹیج پر ہیں؟ کہاں پہنچے؟ کیا کھویا کیا پایا؟ تو جواب ملا – وہ سب کے سب خوب پڑھ لکھ گئے، اچھے اچھوں سے بھی اچھا پڑھ لکھ گئے۔ وہ سب کے سب گروپ تھنکنگ پیٹرن پر تربیت ہوئے ہیں۔ اوریجنل تِھنکرز ہیں۔ ریسرچ کے رسیا ہیں۔ کوئی بھی موضوع ہو، اس کے بخیے ادھیڑ ڈالنے والا رجحان پایا ہے۔ مجھے اُن کی learning پر بجا طور پر بڑا فخر ہے۔ چار بچوں میں سے دو Ivy League Universitiesمیں جا چکے (یہ دنیا کی آٹھ عدد ٹاپ جامعات کا ایک گروپ ہے جس میں ہارورڈ یونیورسٹی بھی شامل ہے اور اس گروپ میں شامل کسی یونیورسٹی میں ایڈمشن کے معیارات خاصے بلند، خاصے سخت ہیں۔ یہ جامعات قطعی سُوپر برین کے حاملین سُوپر قابلیت والے طلبہ و طالبات کو ہی ایڈمشن کے لیے قبول کرتی ہیں)، جبکہ ایک USNA میں چلا گیا ہے ، یعنی یونائیٹڈ سٹیٹس نیول اکیڈمی میں ۔ چوتھا ، سب سے چھوٹا ، میٹرک کی سطح کے سٹینڈرڈائزڈ ٹیسٹ میں appear ہونے کو تیاری کے مرحلہ میں ہے۔ اس انفارمیشن کیساتھ ہی نیچے بچوں کی یہ خوبصورت تصویر شیئر کی گئی ہے۔
آئیں ، اب اپنی دنیا میں لوٹ چلیں، اور دیکھیں یہاں کیا کچھ برپا ہے۔
کوئی دس روز پہلے امریکہ سے ایک دوست نے مجھے تین عددکتابیں بطور تحفہ بھجوائیں۔ واٹس ایپ پر ان کتابوں کا تعارف وہ پہلے سے کروا چکے تھے - اس وضاحت کیساتھ کہ یہ کتابیں نیویارک کے دو عدد ایسے سکول ٹیچرز نے لکھی ہیں جنہوں نے کلاس روم سیچوئیشن میں براہ راست پڑھاتے عمر گذاری تھی۔ وہ سکول کے قید خانے میں بچوں کو بٹھا کر لگاتار سات آٹھ پیریڈز اُن پر جبرا ًٹھونسنے والےاس تعلیمی نظام سے یعنی mass public education خت برگشتہ تھے۔ وہ دورانِ ملازمت بھی اس سسٹم کے سخت ناقد رہے۔ پچیس تیس برس اِس بیگار محنت میں گزار چکنے کے بعد بد دل ہو کر بالآخر وہ ایک روز چھوڑ گئے۔اپنے خیالات منظم انداز میں کمپوز کیے، اور پھر اپنی محدود سی دنیا میں ایک نیا جہان آباد کر ڈالا۔ دوست کا کہنا تھا، اِن امریکن اساتذہ کے خیالات بالکل تمہاری طرح کے ہیں، ضرور پڑھنا۔ کتابیں اُس دوست کے کزن نے پاکستان پہنچتے ہی میرے ایڈریس پر ارسال کر دیں۔ پڑھنا شروع کیا تو بس گم ہی ہو گیا۔
اس سارے مواد اور خود بیتی کی روشنی میں خود ہمارے لیے راہِ عمل کیا ہے؟ اِس مِشن امپاسبل کے خدو خال شاید پانچویں قسط میں شیئر کر سکوں گا۔ فی الحال آپ دوسری قسط کا انتظار کیجے۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)

Wednesday, May 16, 2018

Make A Choice




Don't let your grief, your sadness, your fear or your any sensory deprivation or perceptual isolation make you to forget your part in this world...Neither your sadistic attitude can change this world, nor this world can change your sadistic attitude, it is you who can make a choice to change and make your own world...
as Allah says in Quran
وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا
Do not forget your share of this world.
▬▬▬▬▬▬▬
Al-Quran 28:77

جیسا کہ اس آیت کے پچھلے حصے میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں، کہ وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ جو کچھ تجھے الله نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر

مظلب اگر مال دیا ہے، تو پھر اُس کو اللہ کی محبت میں غریبوں اور مساکینوں اور گھر والوں پر خرچ کرو، اگر فراغت (فارغ وقت) دیا ہے، تو اُس فراغت کو اللہ کی یاد میں صَرف کر، اگر صحت دی ہے، تو اپنی صحت کو اللہ کے لئے صَرف کر، یہ سب کچھ اُس کے شکر میں کر تانکہ تجھے آخرت میں اس سے بہتر صلہ ملے، اگر ان چیزوں میں اللہ نے کچھ نہیں بھی دیا تو پھر بھی تو اُس پر صبر کر، کیونکہ خدا کی طرف سے آنے والے ہر غم کا صلہ بھی ہے اور اُس کا حصہ تیرے لئے آخرت میں چھوڑا گیا ہے، 

آگے اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں، 
وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا
اور تُو اس دنیا میں سے اپنا حصہ لینا نہ بھول جانا۔

مظلب جو مال، صحت، فراغت، تجھے ملی ہے ، تُو اُن کو صرف اللہ کے لئے نہیں بلکہ خود کو بھی اُن دی گئی نعمتوں سے لُطف اندوز کر، مال کو اپنے اوپر بھی خرچ کر، صحت میں دوستوں یاروں، گھر والوں کے لئے وقت نکال اور گھوم پھر، فراغت میں کوئی صحت مندانہ activity کر لے، جیسا کہ کسی gym میں exercise کرنا، کرکٹ کھیلنا، دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا۔۔۔ اور اگر یہ نعمتیں یا ان میں سے کوئی نعمت تجھے نہیں بھی ملی، تُو پھر بھی اپنے لئے کچھ وقت نکال کیونکہ کہ تیرے جسم کا تجھ پرحق ہے۔

جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کو نصیحت کی، کہ 
’’اے عبداللہ بن عمرو مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تو دن کو روزہ رکھتا اور رات بھر قیام کرتا ہے تو اس طرح نہ کر کیونکہ تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری آنکھوں کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے تو روزہ بھی رکھ اور افطار بھی کر ہر مہینے میں سے تین دنوں کے روزے رکھ یہ زمانے کے روزوں کی طرح ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے رکھ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے رھے

عبداللہ بن عمروؓ جب بوڑھے ہو گئے تو اپنے بڑھاپے کی وجہ سے اپنی پرانی routine برقرار نہیں رکھ سکے تو مشکل میں پڑ گئے، تو آپؓ نے فرمایا 
يَا لَيْتَنِي أَخَذْتُ بِالرُّخْصَةِ 
کاش کہ میں نے آپ ﷺ کی طرف سے دی گئی رخصت پر عمل کرلیا ہوتا۔‘‘

مظلب جوانی میں ہوش سے کام لیتا نہ کہ جوش سے۔۔۔ 

کتاب الصیام، صحیح مسلم

لہذا چاہے ہم مشکلات میں ہوں یا آسانیوں کے دور سے گزر رہے ہوں، چاہئے ہم غم میں ہوں یا خوشی میں، ہمیں اپنے لئے اُس اچھے یا بُرے دَور میں وقت نکالنا چاہئے، exercises, ہوں یا کوئی بھی healthy activity ہو، اُن میں اپنی contribution دینی چاہئے۔ یہ رُخصت اللہ تعالٰی کی دی گئی ہے، اس کو avail کرنا چاہئے۔ اور یہ سب صحت مند سرگرمیاں ہمارے لئے خدا نے پیدا کی ہیں تانکہ ہمارا ذہن ہر طرح کی کوفت سے بچا رہے، ہر طرح کی صحت مندانہ سرگرمیاں ہماری عمر میں اضافہ کرتی ہیں۔

قرآن میں اللہ کا ارشادِ گرامی ہے

مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ 
ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اتارا کہ تم مشقت میں پڑے رہو۔

القرآن 20:2

Monday, June 12, 2017

How To Retain More From The Books You Read In 5 Simple Steps




1: Have A Purpose:
I strongly believe that the content of books should align with what’s going on in your life. Only read books that teach you how to overcome your current challenges.

2: See Yourself As A Teacher:
Sharing knowledge is a great application. You might not be a teacher, but if you act like one, you’re already applying knowledge

3. Highlight & Make Mental Connections:
The more connections you make between pieces of information in your brain, the better you remember it. I do that by making a lot of notes. just don’t forget to highlight interesting passages.write down why you highlighted something, not always but for important notes.

4. Visualize & Imagine:
Another great way to make connections in your mind is by visualizing what you’re learning. I imagine myself sitting together with a friend and talking about the subject. Or, when I read a piece of useful advice, I visualize myself actually doing that thing.

5. Immediately Apply One Piece Of New Knowledge.
Ask yourself: How can I grow? That can be personally, financially or spiritually.Understand that growth doesn’t happen by itself. it all takes hard work.But you can make that growth a lot easier if you apply the things you learn in books.

"Remember: Knowledge alone is completely useless."
You must go out there and apply things you learn.. always ask yourself this after you finish a book. “What’s the one thing I’m going to apply after reading this book?”. it’s about what you do with your knowledge, not about how much you have. Don’t read more. Read smarter.