Thursday, September 13, 2018

تعلیمی نظام --- ہونا کیا چاہئیے ـــ (تیسری قسط) ہمایوں مجاہد تارڑ


ترقی یافتہ دنیا کے تعلیمی نظام پر ایک سرسری سی نگاہ ڈال کر دیکھ لیں۔ اندازہ ہو جائے گا کہ چند ایک فیچرز جنہیں بلاتردّد، اور بِلا قیمت فی الفور اپنایا جا سکتا ہے، وہ کیا ہیں۔ دو روز پہلے میری لینڈ (امریکہ) میں مقیم ایک پاکستانی بہن سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ خلاصہ پیشِ خدمت ہے ـــ اِس اپیل کیساتھ کہ وطنِ عزیز میں جو کوئی بھی ایجوکیشن فیلڈ میں ہے، جہاں بھی ہے، حسبِ مقدور اِن خصوصیات کو کسی طور ایڈجسٹ کرنے اور کرانے کی کوشش کرے۔ اور نہیں تو آس پاس میں موجود ہم پیشہ لوگوں سے ان پر بات کرے۔ بات سے بات بنتی، پھیلتی، رفتہ رفتہ سماج اندر سرایت کرتی ہے۔ احباب سے گذارش ہے یہاں شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد کو ٹیگ کر دیں۔ کون جانے، کس گلی محلّے کے کس ادارے میں کچھ بچوں کی زندگیاں قدرے آسان ہو جائیں! 
نرسری اور کِنڈرگارٹن کی سطح پر تو ہمارے یہاں بھی اکثر سکولز میں ایکویٹی بیسڈ پروگرام ہی چلتا ہے۔ تاہم، گریڈ 2 اور اس سے اوپر کے گریڈز میں کتابوں اور کاپیوں سے ٹھنسے بھاری بستوں کی لعنت شروع ہو جاتی ہے۔ گریڈ فور کے بچے کا بیگ ایک نظر دیکھیں، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ دنیا کے سکولز میں جیسے کینیڈا، انگلینڈ، جاپان، فِن لینڈ، میری لینڈ وغیرہ میں بھاری بستے کا کوئی رواج نہیں۔ خیر، امریکی ریاست میری لینڈ کی بات کرتے ہیں۔ جس بہن سے بات ہوئی، وہ منٹگمری کاؤنٹی میں مقیم ہیں اور خود بھی شعبہِ تعلیم سے وابستہ ہیں۔
سکول کا آغاز صبح 9 بجے ہوتا ہے۔ بچوں کے لئے چیک اِن ٹائم 8:45 ہے۔
بچے ناشتہ سکول میں ہی کیا کرتے ہیں۔ وہاں فنڈز چونکہ زیادہ ہیں، اس لئے ایجوکیشن اور کھانا پینا فری ہے۔
ایک کلاس میں دو یا اس سے زیادہ ٹیچرز بھی بیک وقت موجود ہو سکتے ہیں تا کہ چیلنجنگ بچوں کو توجہ دی جا سکے۔ کم سے کم بھی ایک عدد اسسٹنٹ ٹیچر تو ضرور ہی ہوتا یا ہوتی ہے۔
سبجیکٹ ٹیچر کو ایک عدد نصابی کتاب ضرور مہیا کی جاتی ہے۔ تاہم، اسے مکمّل آزادی ہے کہ کوئی ٹاپک پڑھانے کو وہ جو چاہے ذرائع استعمال کرے۔
چھوٹی کلاسز جیسے گریڈز وَن، ٹو، تھری کی سطح پر بچوں کو اخلاقیات اور ادب آداب سکھانے پر زور ہے۔ نیز، آرٹس، میوزک، لائبریری میں پڑی رنگا رنگ کتابوں پر بات چیت، نمبرز کے بنیادی تصورات پر تھوڑا فوکس، کھیل اور بس۔ سائنس، میتھ، جیو گرافی، اسلامیات، سوشل سٹڈیز وغیرہ کو بھاری بھرکم سبجیکٹس کے بطور پڑھانے، کاپیاں بھرانے، ہوم ورک دینے، امتحان لینے اور ان امتحانات کے لئے رٹے لگوانے کا وہاں بالکل بھی تصور نہیں۔ ان سب مضامین کو ٹچ دیا جاتا ہے، تاہم سکول کی سطح تک ہی، اور ہلکے پھلکے انداز میں۔
بچے کے بیگ میں ایک آدھ سٹوری بُک اور ہوم ورک کے بطور ملی ایک یا دو عدد فوٹو کاپی والی شیٹس پڑی مل جائیں گی۔ باقی سب کچھ سکول میں ہی رکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی والدین خود خواہش رکھتے ہوں تو اپنے بچے کے لئے اضافی ہوم ورک طلب کر سکتے ہیں۔
ہر ٹاپِک یا ایکٹیویٹی کے بعد ہر سکِل کی assessment ہوتی ہے، ایک عدد چھوٹے سے کوئز کی صورت، لیکن ماہانہ، سہ ماہی، اور سالانہ امتحانات نہیں دئیے جاتے۔ گریڈ سِکس، سیون، اور 8 تک ایسا ہی ہے۔ نتیجتاً بچے سٹریس فری ماحول میں پڑھتے اور انجوائے کرتے ہیں۔
یہ بہن جس کاؤنٹی میں مقیم ہیں وہاں جنوبی امریکہ سے آئے Spanish بچوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ ایسے بچوں کو انہی کی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے نہ کہ ان پر انگلش میڈیم ٹھونس دیا جائے۔ البتہ انگلش کے لئے ایک عدد کلاس الگ سے دی جاتی ہے۔ یعنی مجموعی طور پر میڈیم آف انسٹرکشن بچوں کی اپنی زبان!
بچوں کو سکول کی صفائی ستھرائی میں خوب اِنوالو کیا جاتا ہے (جو کہ جاپانی نظامِ تعلیم کا بھی نمایاں ایک فیچر ہے)، نیز انہیں استعمال شدہ کاغذ اور پلاسٹک کی بوتلیں رِی سائیکل کرنے پر بھی لگایا جاتا ہے۔
باصلاحیت بچوں کے لئے ایک عدد سپیشل کلاس کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں انہیں زیادہ چیلنجنگ سیچوئیشنز کیساتھ آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں تا کہ حسبِ استعداد انہیں زیادہ گرو کرنے کا چانس ملے چونکہ ایسے بچے نارمل slow paced learningسے بور ہو جاتے ہیں۔ یوں، ایسے بچوں کو الگ سے پالش کرنے، اور اُن کی inventive genius کو جِلا دینے کا اہتمام ہر ادارے کو کرنا چاہئیے، نہ کہ سب بچوں کو ایک ہی بینڈ ویگن میں گھسیڑ دیا جائے۔
روایتی طرز تعلیم و تدریس والے ایسے ماحول کی وہاں کوئی گنجائش نہیں کہ ایک کلاس میں سب بچے ایک ہی کتاب کھول کر بیٹھ جائیں اور پھر چپ چاپ استاد صاحب کی بورنگ گفتگو سنتے رہیں۔ بلکہ کوئی چھوٹی موٹی ویڈیو دکھا کر، یا ایک عدد driving question دے کر بچوں کو خود ایکسپلور کرنے کی راہ پر ڈالا جاتا ہے۔ بس نگرانی اور مدد کی جاتی ہے۔ بعض اوقات بچوں کو اپنی findings پیش کرنے کو صرف گروپ ڈسکشن تک محدود رکھا جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر انہیں کتابوں، رسائل، اور انٹرنیٹ تک رسائی دی جاتی ہے۔
بچوں کو گروپ ڈسکشن کی غرض سے دئیے گئے ٹاپِکس اس طور منتخب کئے جاتے ہیں کہ بچے agree یا disagree کریں تا کہ اُن کی فکری اور تجزیاتی قوت میں اضافہ ہو۔
والدین کو بچوں کے تعلیمی عمل میں ملوّث ہونے اور رہنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ وہاں کے والدین بس PTM یعنی Parents Teachers Meeting تک محدود نہیں رکھے جاتے جیسا کہ ہمارے یہاں کے والدین ماہانہ یا سہ ماہی امتحان کے بعد رزلٹ لینے آجاتے ہیں، وہ بھی چند منٹوں کے لئے، بلکہ وہاں PTA یعنی Parents Teachers Association کا رواج ہے۔ والدین بچوں کی لرننگ میں رضاکارانہ مدد کیا کرتے ہیں۔ کوئی کیمپ لگا ہو یا کوئی کلب ایکٹویٹی برپا تو وہ باری باری ڈیوٹی دیا کرتے ہیں۔ یا فنڈ ریزنگ پروگرام میں، اور پراجیکٹس میں جو parent جس حد تک بھی اثر انداز ہو سکے رضا کارانہ اپنا تعاون پیش کیا کرتا ہے۔ گویا ایک کمیونٹی بن کر رہنے کا چلن۔ ایک دوسرے کی ضرورتوں سے آگاہ رہنے، مدد کرنے اور یوں ایکدوسرے کی خوبیوں اور مہارتوں سے مستفیض ہونے والا ماحول۔
یہی وجہ ہے کہ شام کو اکیڈمی اور ٹیوشن کا وہاں کوئی سکوپ نہیں۔ جن بچوں کو کسی سبجیکٹ میں ایکسٹرا کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بہرصورت سکول کے اندر ہی پوری کر دی جاتی ہے۔
بچے بہ خوشی سکول جاتے اور خوش باش واپس آیا کرتے ہیں۔
لگتا ہے، میری لینڈ میں تعلیمی ماحول بہت عمدہ ہے۔ امریکہ میں بعض مقامات پر پبلک سکول ایجوکیشن اچھی نہیں ہے۔ اسی طرح، اوپری سطح پر بھی سٹیڈرڈائزڈ ٹیسٹوں نے ستیاناس کر رکھا ہے بچوں کی تعلیمی زندگیوں کا۔ ڈراپ آؤٹ بچوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا میں بیشتر مقامات پر تعلیم بچوں کے لئے ایک بے حد ناخوشگوار تجربہ ہے۔ اسی لئے میں اسے ایجوکیشنل چائلڈ لیبر کہا کرتا ہوں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر: ہمایوں مجاہد تارڑ

No comments:

Post a Comment