Thursday, September 13, 2018

تعلیمی نظام ــــ ہونا کیا چاہئیے؟ --- (پارٹ 2) تحریر: ہمایوں مجاہد تارڑ

جبکہ ایک طرف ہمارے یہاں 40 اور 50 اور 70 بچوں سے لبا لب بھرے کمرہِ جماعت میں یہ قوم کُش تعلیمی نظام اِن معصوموں کو اپنے سپائڈر ویب اندر جکڑے بیٹھا ہے، اِن کی تخلیقی صلاحیتوں، اِن کی معصوم خوشیوں، توانائیوں اور جوش و خروش کو قتل کیے دیتا ہے، دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ خود ترقی یافتہ دنیا کے بعض حصّوں میں بھی بیداری کی ایک نئی لہر ہے۔ تھوڑی بہت خود ہمارے یہاں بھی۔
گذشتہ 20 بیس برسوں میں انسانی سماج میں کچھ خاص تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ٹیکنولوجیکل تبدیلیاں، اور سماجی نوعیت کی تبدیلیاں جنہوں نے باسیانِ ارض کا طرزِ زندگی یعنی لائف سٹائل بدل ڈالا ہے۔اوراِنہی تبدیلیوں نے کلاس روم میں برپا معیارِ تعلیم و تدریس پر سوالیہ نشان لگا ڈالے ہیں۔ چنانچہ یہ احساس ایک تسلسل سے بڑھا ہے کہ ہم لوگ بتدریج ایک زیادہ تر پروفیشنل لائف کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں ٹیکنالوجی کا کردار بے پناہ حد تک زیادہ ہو گا کہ ٹیکنالوجی اب ایک زندہ حقیقت ہے۔ کم خرچ بالا نشیں والا نسخہِ کیمیا ہے ـــ یعنی کم وقت زیادہ رفتار کیساتھ flawless نتائج حاصل کر لینا۔ نئی سکِلز تو ساری کی ساری اسی ٹیکنالوجی سے جڑی ہیں۔ جس فرد یا قوم نے بھی آگے بڑھنا ہے، اسے بہرصورت ٹیکنالوجی پر ہی اپنا ہاتھ بٹھانا اور اِس ہنرکاری میں دوسروں سے excel کر کے دکھانا ہو گا، ورنہ میدان کوئی اور مار لے گا۔ علمِ فلکیات (ایسٹرانومی) سے لیکر علمِ حشرات الارض (اینٹومولوجی) تک ہر ہر شعبہِ زندگی میں رفتارِ کار اب اسی سے متعیّن ہوتی ہے۔ نئی دریافتیں اور ایجادات اور اِس عمل میں رفتارِ کار اور سٹائل اور ڈیزائن سب کچھ اسی کا مرہونِ منّت۔ اس لئے تسلیم کہ ہمیں اپنے بچوں کو اِس سے دور نہیں رکھنا، اُلٹا اس کی باریک بینیوں سے آگاہ کرنے کے مثبت استعمال پر لگانا ہے کہ دنیا بتدریج artificial intelligence کی جانب بڑھ رہی ہے۔ Animation اور 3-D Printer کی قوتیں نینو ٹیکنالوجی سے مزید تقویت پا کر معجزے بپا کرنے کو ہیں۔ حیرتوں سے لدے اُس دور کی دستک دروازے پر صاف سنی جا سکتی ہے جس کی آب و تاب عنقریب ہم اپنی آنکھوں برپا ہوتے دیکھیں گے۔ یُوں، یہ بھی تسلیم کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب زندگی کے تقاضے یکسر بدل کر رہ جائیں گے۔ سینکڑوں جابز صفحہِ ہستی سے مٹ جائیں گی۔ جیسے گیس والا ہیٹر آیا تو کوئلے کی بوریاں جانور کی کمر پر ٹکا ٹکا یا اپنی کمر پر لاد لاد مختلف گھروں میں بیچنے والے مزدور کا کام ٹھپ ہو گیا، اسے الیکٹریشن بن جانا پڑا جو گیس والے چولہے ریپئر کر سکتا ہو۔ فریج کے آ جانے سے گھڑے بنانے والی صنعت دم توڑ گئی۔ بالکل اسی طرح نئی مارکیٹ، نئی دنیا کا سلسلہِ روزوشب نئی skills یا مہارتوں کا متقاضی ہو گا۔ جبکہ رواں ساعت دنیا کے متعدّد حصوں میں، بالخصوص پاکستان میں، جو تعلیمی کاروبار گرم ہے، اُس میں مستقبل کی تیاری کی کوئی خاص رمق ہمیں نظرنہیں آ رہی۔
تاہم، جو بات حوصلہ افزا ہے وہ خود اِس بیداری کی لہر کا احساس ہے۔ اور ترقی کے سفر میں احساسِ زیاں کا ہونا ہی اوّلین قدم ہے۔ آگے بڑھتے ہیں۔ میرے ساتھ رہئیے! 
آج جب Future Schooling کی بات چھڑتی ہے تو ہماری فکر اس نکتہ پر مرکوز ہو جاتی ہے کہ اب سے آگے 40 یا 50 برسوں بعد تعلیمی ادارے کیسے ہوں گے؟ حالانکہ اِس سے کہیں درجہ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ گذشتہ ایک صدی میں تعلیم وتدریس نے فاصلہ کس قدر طے کیا، یعنی جب سے اِس نوع کی ماڈرن سکولنگ کا آغاز ہوا ـــــ یعنی 1837 میں جب امریکی ریاست میسا چُوسٹ کے ہوریس مَین نے اس طرز کے پہلے سکول کی بنیاد رکھی جس میں تعلیم کے بنیادی مواد کو منظّم نصاب کے بطور پیشہ ور اساتذہ کے ہاتھوں پڑھایا جانے لگا۔ ہوریس مَین میسا چُوسٹ کا تب سیکریٹری آف ایجوکیشن تھا۔ تخلیقی آدمی تھا۔ اگرچہ تھوڑا آگے چل کر اِس ماڈرن ورژن آف سکول سسٹم پر بھی کچھ مغربی ریفارمرز زوردار انداز میں اثر انداز ہوئے، جیسے پیسٹا لوزی، ہربرٹ اور مشہورو معروف مِس مونٹے سوری جن کے نام کی نسبت سے ایک پورا Montessori System شرق و غرب میں پھیل گیا۔
لیکن واپس مڑ کر دیکھیں تو ایک بات پریشان کئے دیتی ہے۔ اِس تحریر کے ساتھ جو تصویر بلیک اینڈ وائٹ میں ہے، وہ سٹریتھ کلائڈ پرائمری سکول، گلاسگو، یعنی سکاٹ لینڈ کی ہے۔ یہ 1918 کے زمانے کی تصویر ہے۔ کمرے میں کشادہ کھڑکیاں اور فینسی لائٹس تک نظر آرہی ہیں۔ سافٹ بورڈ اور الیکٹرانک بورڈ بعد کی پیداوار ہیں۔ یہ اُس زمانے کا جدید نظامِ تعلیم تھا جسے اب ہم ایک روایتی طرزِ تعلیم کہا کرتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ہاں بیشتر گورنمنٹ سکولز میں، حتٰی کہ ہزاروں پرائیویٹ اداروں میں بھی ـــ آج بھی ـــ بس یہی ماحول ہے۔ میں اور آپ، ہمارے والدین، اور ان کے والدین انہی اداروں میں پڑھ لکھ کر جوان ہوئے۔ پچھلے کچھ برسوں میں اضافہ اگر کچھ ہوا تو بس مارکر والے وائٹ بورڈ کا۔ الیکٹرونک بورڈ بعض بِگ برانڈ اداروں نے بھی نہیں لگا رکھے ــــ جیسا کہ آپ رنگین تصویر میں دیکھتے ہیں جس میں ٹیچر نے بورڈ پر پاور پوائنٹ پریذنٹیشن کھول رکھی ہے۔
لیکن یہاں بحث ٹیکنالوجی کی integration کی نہیں ہے۔ اِن سب سکولوں میں futuristic feel اب بدرجہ اتم موجود ہے ــــ کہ آئی پیڈ، کمپیوٹ، سافٹ بورڈ اور الیکٹرونک بورڈ وغیرہ کا استعمال کیا جائے۔ جو شے اِن تمام برسوں میں بدل کر نہیں دے رہی وہ کچھ اور ہے۔ یہ آرٹیکل جس مقصد کے لئے لکھا گیا ، وہ نکتہ ہی کچھ اور ہے۔ وہ وِژن کیا ہے؟
وہ یہ ہے کہ اِس سارے سازوسامان اور تعلیم و تدریس کے عمل کے بیچ، اِس عمل کی مرکزی شخصیت یعنی خود بچّے کو ہم کس انداز اور زاوئیے سے دیکھتے ہیں۔
اِس اعتبار سے پچھلی ڈیڑھ صدی میں جو phenomenon مستقلاً چھایا رہا ہے اور آج کے جدید تعلیمی ماحول پر بھی غالب اور برابر مسلّط نظر آتا ہے وہ بچّے کو جبراً کچھ طے شدہ مواد پڑھائے جانے کا ہے۔ یعنی اُس پر ٹھونسے جانے والے انداز میں۔ اِس پر مستزاد، مواد کا اپنی مادری زبان میں نہ ہونے کا عذاب ہے ـــ اگرچہ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا، اور خود میرا اپنا ایک آرٹیکل بھی موجود ہے۔
جب ہم جدید نظامِ تعلیم اور مستقبل کی بات کرتے ہیں تو بدقسمتی سے ہم ٹیکنالوجی، گیجٹس، ایپس، سسٹمز، جابز، کیریئر کی بات کرنے لگ جاتے ہیں۔ بلاشبہہ اِن کی اہمیت اپنی جگہ ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ تاہم، مستقبل کے حوالے سے تعلیمی عمل میں اصلاحات کو ٹیکنولوجیکل سازوسامان اور کلاس روم کی مزید furnishing سے جوڑنا غلط ہے۔ بیچ کا اصل کام وہیں پڑا رہ جاتا ہے ـــ یعنی بچّہ۔ سوچنا یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اُن کی سماجی، جذباتی اور ادراکی اعتبار سے کیسے بہتر بنائی جائے۔ اِس ضمن میں ایک افسوسناک صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ دنیا اِس حوالے سے گویا ایک نفسیاتی پاگل پن کا شکار ہے۔ کیسے؟
بچے کی ادراکی، سماجی، اور جذباتی ضرورتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اُسےوہی پرانی والی بے رحم رُوٹین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اُس بچّے سے کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ کیا پڑھنا چاہتا ہے؟ کیسے پڑھنا چاہتا ہے؟ کیا سیکھنا چاہتا ہے؟ کیسے سیکھنا چاہتا ہے؟ وہ کیا جاننا چاہتا ہے؟ اسے کیا اچھا لگتا ہے؟ اگر آج کا ٹائم ٹیبل وہ خو د بنائے تو کیسا ہو گا؟ پہلے کیا پڑھنا چاہے گا؟ کب اور کیا کھیلنا چاہے گا؟ سکول اور ٹیچر کو کس حد تک اس بچّے کی زندگی dictate کرنی چاہئیے؟
جی ہاں، یہ زیادہ اہم سوالات ہیں۔ جدید طرزِ تعلیم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انفرا سٹرکچر اِمپروو کر لیا جائے اور بس! غلطی سے، عمارت کا رنگ رُوپ بدل ڈالنے اور اُس اندر کچھ جدید آلات نصب کر دینے کو جدید نظامِ تعلیم سمجھ لیا گیا ہے۔ دِلی معذرت، ایسا نہیں ہے۔ آپ کا سٹاف کسی برٹش کونسل سے ٹریننگ لے کر آ گیا ہے۔ بھلے ہارورڈ یونیورسٹی کا چکر ہی کیوں نہ لگا آئے۔ یہ جدید نظامِ تعلیم نہیں ہے۔ یا یہ کہ آپ کی کتب کا مواد درسِ نظامی والوں سے زیادہ اپ ڈیٹڈ ہے؟ آپ نے کیمبرج اور آکسفورڈ کی کتابیں لگا رکھی ہیں؟ یہ سب اچھا ہے، خوب اچّھا، لیکن خود بچّے کو دیکھنے کا ہماراانداز اگر نہیں بدلا، تو یقین جانیں کچھ نہیں بدلا۔ اور ہم اب بھی کُہنہ سال روایتی طرزِ تعلیم یعنی traditional schooling کی بند گلی میں سے باہر نہیں آئے۔
تو بات یہ ہے کہ بِلڈنگ نہیں، مائنڈ سیٹ بدلنے سے سسٹم بدلے گا۔
مائنڈ سیٹ کس کا؟
ٹیچر کا، والدین کا، ایڈمنسٹریشن کا، حکومت کا ــــ سب سٹیک ہولڈرز کا جو بچے کو تعلیم دینے کے عمل میں اِنوالو ہیں۔
بچّے کی حیثیت سارے سسٹم میں مرکزی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ بچے کو تعلیم دینے کی خاطر ہی تو کِیا جا رہا ہے۔ مجھے اصرار ہے کہ ایسا نہیں ہے!
یہ اہم کام ہم لوگ نہیں کر رہے۔ تعلیمی ادارے نہیں کر رہے۔ وژنری ماہرینِ تعلیم کی آنکھیں بھی اِس اعتبار سے بند نظر آتی ہیں۔ یقین جانیں ہم لوگ کوئی نئی شے اختراع نہیں کر رہے! تعلیمی نظام میں اِمپروومنٹ کا مطلب غلطی سے بس یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ:
اُسی رویتی طرزِ تدریس کو ذرا زیادہ digitalize کر دیا جائے۔
ٹیچر یا معلّم کو جو مواد کتاب میں سے پڑھ یا پڑھوا کر explain کرنا تھا، اب وہ سمارٹ بورڈ پر دکھا سکتا ہے۔
ورک شیٹس بھی اسی الیکٹرونک بورڈ پر دکھا کر زبانی یا تحریری جواب طلب کر سکتا ہے۔
لکھنے کے تردّد سے نجات مل گئی۔ وقت کی بھی بچت ہوئی۔
نیز، ڈائیاگرام وغیرہ دکھانے کا عمل بھی آسان ہو گیا۔
اسی طرح بچّے کی سطح پر بھی ٹیب اور لیپ ٹاپ نے وقت بچا لیا (اگرچہ ہمارے یہاں سکولز کی سطح پر ٹیب، یا فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ لیجانےکی اجازت نہیں ہے کہ اِس میں مسائل ہیں۔ یعنی بیشتر سکولز میں کمپیوٹر کا استعمال بس کمپیوٹر لیب تک محدود ہے)۔
کمرے ایئر کنڈیشنڈ ہو گئے۔
سکول گیٹ پر حاضری لگانے کوthumb impression والی مشین نصب کر دی۔
انٹرنیٹ کی سہولت ادارے کے درودیوار میں عام ہو گئی۔۔۔۔ وغیرہ۔
بچّے کے لئے وہی dull روٹین ہے اور بس! نظام کا ناک نقشہ نہیں بدلا، صاحب۔ بلکہ اس کے وجود پر چڑھے کپڑے بدل دئیے گئے۔
نظام اپنی سپرٹ میں بعینہ وہی ہے جو ساٹھ برس پہلے رائج تھا۔ کیسے بدلے گا، کیا کرنا ہو گا؟ اگلی قسط میں، انشااللہ۔
پہلے ذہنوں پر طاری یہ گردوغبار جھاڑنا ضروری تھا۔

No comments:

Post a Comment