Thursday, September 13, 2018

تعلیمی نظام --- ہونا کیا چاہئیے ـــ (تیسری قسط) ہمایوں مجاہد تارڑ


ترقی یافتہ دنیا کے تعلیمی نظام پر ایک سرسری سی نگاہ ڈال کر دیکھ لیں۔ اندازہ ہو جائے گا کہ چند ایک فیچرز جنہیں بلاتردّد، اور بِلا قیمت فی الفور اپنایا جا سکتا ہے، وہ کیا ہیں۔ دو روز پہلے میری لینڈ (امریکہ) میں مقیم ایک پاکستانی بہن سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ خلاصہ پیشِ خدمت ہے ـــ اِس اپیل کیساتھ کہ وطنِ عزیز میں جو کوئی بھی ایجوکیشن فیلڈ میں ہے، جہاں بھی ہے، حسبِ مقدور اِن خصوصیات کو کسی طور ایڈجسٹ کرنے اور کرانے کی کوشش کرے۔ اور نہیں تو آس پاس میں موجود ہم پیشہ لوگوں سے ان پر بات کرے۔ بات سے بات بنتی، پھیلتی، رفتہ رفتہ سماج اندر سرایت کرتی ہے۔ احباب سے گذارش ہے یہاں شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد کو ٹیگ کر دیں۔ کون جانے، کس گلی محلّے کے کس ادارے میں کچھ بچوں کی زندگیاں قدرے آسان ہو جائیں! 
نرسری اور کِنڈرگارٹن کی سطح پر تو ہمارے یہاں بھی اکثر سکولز میں ایکویٹی بیسڈ پروگرام ہی چلتا ہے۔ تاہم، گریڈ 2 اور اس سے اوپر کے گریڈز میں کتابوں اور کاپیوں سے ٹھنسے بھاری بستوں کی لعنت شروع ہو جاتی ہے۔ گریڈ فور کے بچے کا بیگ ایک نظر دیکھیں، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ دنیا کے سکولز میں جیسے کینیڈا، انگلینڈ، جاپان، فِن لینڈ، میری لینڈ وغیرہ میں بھاری بستے کا کوئی رواج نہیں۔ خیر، امریکی ریاست میری لینڈ کی بات کرتے ہیں۔ جس بہن سے بات ہوئی، وہ منٹگمری کاؤنٹی میں مقیم ہیں اور خود بھی شعبہِ تعلیم سے وابستہ ہیں۔
سکول کا آغاز صبح 9 بجے ہوتا ہے۔ بچوں کے لئے چیک اِن ٹائم 8:45 ہے۔
بچے ناشتہ سکول میں ہی کیا کرتے ہیں۔ وہاں فنڈز چونکہ زیادہ ہیں، اس لئے ایجوکیشن اور کھانا پینا فری ہے۔
ایک کلاس میں دو یا اس سے زیادہ ٹیچرز بھی بیک وقت موجود ہو سکتے ہیں تا کہ چیلنجنگ بچوں کو توجہ دی جا سکے۔ کم سے کم بھی ایک عدد اسسٹنٹ ٹیچر تو ضرور ہی ہوتا یا ہوتی ہے۔
سبجیکٹ ٹیچر کو ایک عدد نصابی کتاب ضرور مہیا کی جاتی ہے۔ تاہم، اسے مکمّل آزادی ہے کہ کوئی ٹاپک پڑھانے کو وہ جو چاہے ذرائع استعمال کرے۔
چھوٹی کلاسز جیسے گریڈز وَن، ٹو، تھری کی سطح پر بچوں کو اخلاقیات اور ادب آداب سکھانے پر زور ہے۔ نیز، آرٹس، میوزک، لائبریری میں پڑی رنگا رنگ کتابوں پر بات چیت، نمبرز کے بنیادی تصورات پر تھوڑا فوکس، کھیل اور بس۔ سائنس، میتھ، جیو گرافی، اسلامیات، سوشل سٹڈیز وغیرہ کو بھاری بھرکم سبجیکٹس کے بطور پڑھانے، کاپیاں بھرانے، ہوم ورک دینے، امتحان لینے اور ان امتحانات کے لئے رٹے لگوانے کا وہاں بالکل بھی تصور نہیں۔ ان سب مضامین کو ٹچ دیا جاتا ہے، تاہم سکول کی سطح تک ہی، اور ہلکے پھلکے انداز میں۔
بچے کے بیگ میں ایک آدھ سٹوری بُک اور ہوم ورک کے بطور ملی ایک یا دو عدد فوٹو کاپی والی شیٹس پڑی مل جائیں گی۔ باقی سب کچھ سکول میں ہی رکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی والدین خود خواہش رکھتے ہوں تو اپنے بچے کے لئے اضافی ہوم ورک طلب کر سکتے ہیں۔
ہر ٹاپِک یا ایکٹیویٹی کے بعد ہر سکِل کی assessment ہوتی ہے، ایک عدد چھوٹے سے کوئز کی صورت، لیکن ماہانہ، سہ ماہی، اور سالانہ امتحانات نہیں دئیے جاتے۔ گریڈ سِکس، سیون، اور 8 تک ایسا ہی ہے۔ نتیجتاً بچے سٹریس فری ماحول میں پڑھتے اور انجوائے کرتے ہیں۔
یہ بہن جس کاؤنٹی میں مقیم ہیں وہاں جنوبی امریکہ سے آئے Spanish بچوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ ایسے بچوں کو انہی کی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے نہ کہ ان پر انگلش میڈیم ٹھونس دیا جائے۔ البتہ انگلش کے لئے ایک عدد کلاس الگ سے دی جاتی ہے۔ یعنی مجموعی طور پر میڈیم آف انسٹرکشن بچوں کی اپنی زبان!
بچوں کو سکول کی صفائی ستھرائی میں خوب اِنوالو کیا جاتا ہے (جو کہ جاپانی نظامِ تعلیم کا بھی نمایاں ایک فیچر ہے)، نیز انہیں استعمال شدہ کاغذ اور پلاسٹک کی بوتلیں رِی سائیکل کرنے پر بھی لگایا جاتا ہے۔
باصلاحیت بچوں کے لئے ایک عدد سپیشل کلاس کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں انہیں زیادہ چیلنجنگ سیچوئیشنز کیساتھ آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں تا کہ حسبِ استعداد انہیں زیادہ گرو کرنے کا چانس ملے چونکہ ایسے بچے نارمل slow paced learningسے بور ہو جاتے ہیں۔ یوں، ایسے بچوں کو الگ سے پالش کرنے، اور اُن کی inventive genius کو جِلا دینے کا اہتمام ہر ادارے کو کرنا چاہئیے، نہ کہ سب بچوں کو ایک ہی بینڈ ویگن میں گھسیڑ دیا جائے۔
روایتی طرز تعلیم و تدریس والے ایسے ماحول کی وہاں کوئی گنجائش نہیں کہ ایک کلاس میں سب بچے ایک ہی کتاب کھول کر بیٹھ جائیں اور پھر چپ چاپ استاد صاحب کی بورنگ گفتگو سنتے رہیں۔ بلکہ کوئی چھوٹی موٹی ویڈیو دکھا کر، یا ایک عدد driving question دے کر بچوں کو خود ایکسپلور کرنے کی راہ پر ڈالا جاتا ہے۔ بس نگرانی اور مدد کی جاتی ہے۔ بعض اوقات بچوں کو اپنی findings پیش کرنے کو صرف گروپ ڈسکشن تک محدود رکھا جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر انہیں کتابوں، رسائل، اور انٹرنیٹ تک رسائی دی جاتی ہے۔
بچوں کو گروپ ڈسکشن کی غرض سے دئیے گئے ٹاپِکس اس طور منتخب کئے جاتے ہیں کہ بچے agree یا disagree کریں تا کہ اُن کی فکری اور تجزیاتی قوت میں اضافہ ہو۔
والدین کو بچوں کے تعلیمی عمل میں ملوّث ہونے اور رہنے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ وہاں کے والدین بس PTM یعنی Parents Teachers Meeting تک محدود نہیں رکھے جاتے جیسا کہ ہمارے یہاں کے والدین ماہانہ یا سہ ماہی امتحان کے بعد رزلٹ لینے آجاتے ہیں، وہ بھی چند منٹوں کے لئے، بلکہ وہاں PTA یعنی Parents Teachers Association کا رواج ہے۔ والدین بچوں کی لرننگ میں رضاکارانہ مدد کیا کرتے ہیں۔ کوئی کیمپ لگا ہو یا کوئی کلب ایکٹویٹی برپا تو وہ باری باری ڈیوٹی دیا کرتے ہیں۔ یا فنڈ ریزنگ پروگرام میں، اور پراجیکٹس میں جو parent جس حد تک بھی اثر انداز ہو سکے رضا کارانہ اپنا تعاون پیش کیا کرتا ہے۔ گویا ایک کمیونٹی بن کر رہنے کا چلن۔ ایک دوسرے کی ضرورتوں سے آگاہ رہنے، مدد کرنے اور یوں ایکدوسرے کی خوبیوں اور مہارتوں سے مستفیض ہونے والا ماحول۔
یہی وجہ ہے کہ شام کو اکیڈمی اور ٹیوشن کا وہاں کوئی سکوپ نہیں۔ جن بچوں کو کسی سبجیکٹ میں ایکسٹرا کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بہرصورت سکول کے اندر ہی پوری کر دی جاتی ہے۔
بچے بہ خوشی سکول جاتے اور خوش باش واپس آیا کرتے ہیں۔
لگتا ہے، میری لینڈ میں تعلیمی ماحول بہت عمدہ ہے۔ امریکہ میں بعض مقامات پر پبلک سکول ایجوکیشن اچھی نہیں ہے۔ اسی طرح، اوپری سطح پر بھی سٹیڈرڈائزڈ ٹیسٹوں نے ستیاناس کر رکھا ہے بچوں کی تعلیمی زندگیوں کا۔ ڈراپ آؤٹ بچوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا میں بیشتر مقامات پر تعلیم بچوں کے لئے ایک بے حد ناخوشگوار تجربہ ہے۔ اسی لئے میں اسے ایجوکیشنل چائلڈ لیبر کہا کرتا ہوں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر: ہمایوں مجاہد تارڑ

تعلیمی نظام ــــ ہونا کیا چاہئیے؟ --- (پارٹ 2) تحریر: ہمایوں مجاہد تارڑ

جبکہ ایک طرف ہمارے یہاں 40 اور 50 اور 70 بچوں سے لبا لب بھرے کمرہِ جماعت میں یہ قوم کُش تعلیمی نظام اِن معصوموں کو اپنے سپائڈر ویب اندر جکڑے بیٹھا ہے، اِن کی تخلیقی صلاحیتوں، اِن کی معصوم خوشیوں، توانائیوں اور جوش و خروش کو قتل کیے دیتا ہے، دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ خود ترقی یافتہ دنیا کے بعض حصّوں میں بھی بیداری کی ایک نئی لہر ہے۔ تھوڑی بہت خود ہمارے یہاں بھی۔
گذشتہ 20 بیس برسوں میں انسانی سماج میں کچھ خاص تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ٹیکنولوجیکل تبدیلیاں، اور سماجی نوعیت کی تبدیلیاں جنہوں نے باسیانِ ارض کا طرزِ زندگی یعنی لائف سٹائل بدل ڈالا ہے۔اوراِنہی تبدیلیوں نے کلاس روم میں برپا معیارِ تعلیم و تدریس پر سوالیہ نشان لگا ڈالے ہیں۔ چنانچہ یہ احساس ایک تسلسل سے بڑھا ہے کہ ہم لوگ بتدریج ایک زیادہ تر پروفیشنل لائف کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں ٹیکنالوجی کا کردار بے پناہ حد تک زیادہ ہو گا کہ ٹیکنالوجی اب ایک زندہ حقیقت ہے۔ کم خرچ بالا نشیں والا نسخہِ کیمیا ہے ـــ یعنی کم وقت زیادہ رفتار کیساتھ flawless نتائج حاصل کر لینا۔ نئی سکِلز تو ساری کی ساری اسی ٹیکنالوجی سے جڑی ہیں۔ جس فرد یا قوم نے بھی آگے بڑھنا ہے، اسے بہرصورت ٹیکنالوجی پر ہی اپنا ہاتھ بٹھانا اور اِس ہنرکاری میں دوسروں سے excel کر کے دکھانا ہو گا، ورنہ میدان کوئی اور مار لے گا۔ علمِ فلکیات (ایسٹرانومی) سے لیکر علمِ حشرات الارض (اینٹومولوجی) تک ہر ہر شعبہِ زندگی میں رفتارِ کار اب اسی سے متعیّن ہوتی ہے۔ نئی دریافتیں اور ایجادات اور اِس عمل میں رفتارِ کار اور سٹائل اور ڈیزائن سب کچھ اسی کا مرہونِ منّت۔ اس لئے تسلیم کہ ہمیں اپنے بچوں کو اِس سے دور نہیں رکھنا، اُلٹا اس کی باریک بینیوں سے آگاہ کرنے کے مثبت استعمال پر لگانا ہے کہ دنیا بتدریج artificial intelligence کی جانب بڑھ رہی ہے۔ Animation اور 3-D Printer کی قوتیں نینو ٹیکنالوجی سے مزید تقویت پا کر معجزے بپا کرنے کو ہیں۔ حیرتوں سے لدے اُس دور کی دستک دروازے پر صاف سنی جا سکتی ہے جس کی آب و تاب عنقریب ہم اپنی آنکھوں برپا ہوتے دیکھیں گے۔ یُوں، یہ بھی تسلیم کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب زندگی کے تقاضے یکسر بدل کر رہ جائیں گے۔ سینکڑوں جابز صفحہِ ہستی سے مٹ جائیں گی۔ جیسے گیس والا ہیٹر آیا تو کوئلے کی بوریاں جانور کی کمر پر ٹکا ٹکا یا اپنی کمر پر لاد لاد مختلف گھروں میں بیچنے والے مزدور کا کام ٹھپ ہو گیا، اسے الیکٹریشن بن جانا پڑا جو گیس والے چولہے ریپئر کر سکتا ہو۔ فریج کے آ جانے سے گھڑے بنانے والی صنعت دم توڑ گئی۔ بالکل اسی طرح نئی مارکیٹ، نئی دنیا کا سلسلہِ روزوشب نئی skills یا مہارتوں کا متقاضی ہو گا۔ جبکہ رواں ساعت دنیا کے متعدّد حصوں میں، بالخصوص پاکستان میں، جو تعلیمی کاروبار گرم ہے، اُس میں مستقبل کی تیاری کی کوئی خاص رمق ہمیں نظرنہیں آ رہی۔
تاہم، جو بات حوصلہ افزا ہے وہ خود اِس بیداری کی لہر کا احساس ہے۔ اور ترقی کے سفر میں احساسِ زیاں کا ہونا ہی اوّلین قدم ہے۔ آگے بڑھتے ہیں۔ میرے ساتھ رہئیے! 
آج جب Future Schooling کی بات چھڑتی ہے تو ہماری فکر اس نکتہ پر مرکوز ہو جاتی ہے کہ اب سے آگے 40 یا 50 برسوں بعد تعلیمی ادارے کیسے ہوں گے؟ حالانکہ اِس سے کہیں درجہ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ گذشتہ ایک صدی میں تعلیم وتدریس نے فاصلہ کس قدر طے کیا، یعنی جب سے اِس نوع کی ماڈرن سکولنگ کا آغاز ہوا ـــــ یعنی 1837 میں جب امریکی ریاست میسا چُوسٹ کے ہوریس مَین نے اس طرز کے پہلے سکول کی بنیاد رکھی جس میں تعلیم کے بنیادی مواد کو منظّم نصاب کے بطور پیشہ ور اساتذہ کے ہاتھوں پڑھایا جانے لگا۔ ہوریس مَین میسا چُوسٹ کا تب سیکریٹری آف ایجوکیشن تھا۔ تخلیقی آدمی تھا۔ اگرچہ تھوڑا آگے چل کر اِس ماڈرن ورژن آف سکول سسٹم پر بھی کچھ مغربی ریفارمرز زوردار انداز میں اثر انداز ہوئے، جیسے پیسٹا لوزی، ہربرٹ اور مشہورو معروف مِس مونٹے سوری جن کے نام کی نسبت سے ایک پورا Montessori System شرق و غرب میں پھیل گیا۔
لیکن واپس مڑ کر دیکھیں تو ایک بات پریشان کئے دیتی ہے۔ اِس تحریر کے ساتھ جو تصویر بلیک اینڈ وائٹ میں ہے، وہ سٹریتھ کلائڈ پرائمری سکول، گلاسگو، یعنی سکاٹ لینڈ کی ہے۔ یہ 1918 کے زمانے کی تصویر ہے۔ کمرے میں کشادہ کھڑکیاں اور فینسی لائٹس تک نظر آرہی ہیں۔ سافٹ بورڈ اور الیکٹرانک بورڈ بعد کی پیداوار ہیں۔ یہ اُس زمانے کا جدید نظامِ تعلیم تھا جسے اب ہم ایک روایتی طرزِ تعلیم کہا کرتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ہاں بیشتر گورنمنٹ سکولز میں، حتٰی کہ ہزاروں پرائیویٹ اداروں میں بھی ـــ آج بھی ـــ بس یہی ماحول ہے۔ میں اور آپ، ہمارے والدین، اور ان کے والدین انہی اداروں میں پڑھ لکھ کر جوان ہوئے۔ پچھلے کچھ برسوں میں اضافہ اگر کچھ ہوا تو بس مارکر والے وائٹ بورڈ کا۔ الیکٹرونک بورڈ بعض بِگ برانڈ اداروں نے بھی نہیں لگا رکھے ــــ جیسا کہ آپ رنگین تصویر میں دیکھتے ہیں جس میں ٹیچر نے بورڈ پر پاور پوائنٹ پریذنٹیشن کھول رکھی ہے۔
لیکن یہاں بحث ٹیکنالوجی کی integration کی نہیں ہے۔ اِن سب سکولوں میں futuristic feel اب بدرجہ اتم موجود ہے ــــ کہ آئی پیڈ، کمپیوٹ، سافٹ بورڈ اور الیکٹرونک بورڈ وغیرہ کا استعمال کیا جائے۔ جو شے اِن تمام برسوں میں بدل کر نہیں دے رہی وہ کچھ اور ہے۔ یہ آرٹیکل جس مقصد کے لئے لکھا گیا ، وہ نکتہ ہی کچھ اور ہے۔ وہ وِژن کیا ہے؟
وہ یہ ہے کہ اِس سارے سازوسامان اور تعلیم و تدریس کے عمل کے بیچ، اِس عمل کی مرکزی شخصیت یعنی خود بچّے کو ہم کس انداز اور زاوئیے سے دیکھتے ہیں۔
اِس اعتبار سے پچھلی ڈیڑھ صدی میں جو phenomenon مستقلاً چھایا رہا ہے اور آج کے جدید تعلیمی ماحول پر بھی غالب اور برابر مسلّط نظر آتا ہے وہ بچّے کو جبراً کچھ طے شدہ مواد پڑھائے جانے کا ہے۔ یعنی اُس پر ٹھونسے جانے والے انداز میں۔ اِس پر مستزاد، مواد کا اپنی مادری زبان میں نہ ہونے کا عذاب ہے ـــ اگرچہ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا، اور خود میرا اپنا ایک آرٹیکل بھی موجود ہے۔
جب ہم جدید نظامِ تعلیم اور مستقبل کی بات کرتے ہیں تو بدقسمتی سے ہم ٹیکنالوجی، گیجٹس، ایپس، سسٹمز، جابز، کیریئر کی بات کرنے لگ جاتے ہیں۔ بلاشبہہ اِن کی اہمیت اپنی جگہ ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ تاہم، مستقبل کے حوالے سے تعلیمی عمل میں اصلاحات کو ٹیکنولوجیکل سازوسامان اور کلاس روم کی مزید furnishing سے جوڑنا غلط ہے۔ بیچ کا اصل کام وہیں پڑا رہ جاتا ہے ـــ یعنی بچّہ۔ سوچنا یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اُن کی سماجی، جذباتی اور ادراکی اعتبار سے کیسے بہتر بنائی جائے۔ اِس ضمن میں ایک افسوسناک صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ دنیا اِس حوالے سے گویا ایک نفسیاتی پاگل پن کا شکار ہے۔ کیسے؟
بچے کی ادراکی، سماجی، اور جذباتی ضرورتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اُسےوہی پرانی والی بے رحم رُوٹین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اُس بچّے سے کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ کیا پڑھنا چاہتا ہے؟ کیسے پڑھنا چاہتا ہے؟ کیا سیکھنا چاہتا ہے؟ کیسے سیکھنا چاہتا ہے؟ وہ کیا جاننا چاہتا ہے؟ اسے کیا اچھا لگتا ہے؟ اگر آج کا ٹائم ٹیبل وہ خو د بنائے تو کیسا ہو گا؟ پہلے کیا پڑھنا چاہے گا؟ کب اور کیا کھیلنا چاہے گا؟ سکول اور ٹیچر کو کس حد تک اس بچّے کی زندگی dictate کرنی چاہئیے؟
جی ہاں، یہ زیادہ اہم سوالات ہیں۔ جدید طرزِ تعلیم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انفرا سٹرکچر اِمپروو کر لیا جائے اور بس! غلطی سے، عمارت کا رنگ رُوپ بدل ڈالنے اور اُس اندر کچھ جدید آلات نصب کر دینے کو جدید نظامِ تعلیم سمجھ لیا گیا ہے۔ دِلی معذرت، ایسا نہیں ہے۔ آپ کا سٹاف کسی برٹش کونسل سے ٹریننگ لے کر آ گیا ہے۔ بھلے ہارورڈ یونیورسٹی کا چکر ہی کیوں نہ لگا آئے۔ یہ جدید نظامِ تعلیم نہیں ہے۔ یا یہ کہ آپ کی کتب کا مواد درسِ نظامی والوں سے زیادہ اپ ڈیٹڈ ہے؟ آپ نے کیمبرج اور آکسفورڈ کی کتابیں لگا رکھی ہیں؟ یہ سب اچھا ہے، خوب اچّھا، لیکن خود بچّے کو دیکھنے کا ہماراانداز اگر نہیں بدلا، تو یقین جانیں کچھ نہیں بدلا۔ اور ہم اب بھی کُہنہ سال روایتی طرزِ تعلیم یعنی traditional schooling کی بند گلی میں سے باہر نہیں آئے۔
تو بات یہ ہے کہ بِلڈنگ نہیں، مائنڈ سیٹ بدلنے سے سسٹم بدلے گا۔
مائنڈ سیٹ کس کا؟
ٹیچر کا، والدین کا، ایڈمنسٹریشن کا، حکومت کا ــــ سب سٹیک ہولڈرز کا جو بچے کو تعلیم دینے کے عمل میں اِنوالو ہیں۔
بچّے کی حیثیت سارے سسٹم میں مرکزی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ بچے کو تعلیم دینے کی خاطر ہی تو کِیا جا رہا ہے۔ مجھے اصرار ہے کہ ایسا نہیں ہے!
یہ اہم کام ہم لوگ نہیں کر رہے۔ تعلیمی ادارے نہیں کر رہے۔ وژنری ماہرینِ تعلیم کی آنکھیں بھی اِس اعتبار سے بند نظر آتی ہیں۔ یقین جانیں ہم لوگ کوئی نئی شے اختراع نہیں کر رہے! تعلیمی نظام میں اِمپروومنٹ کا مطلب غلطی سے بس یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ:
اُسی رویتی طرزِ تدریس کو ذرا زیادہ digitalize کر دیا جائے۔
ٹیچر یا معلّم کو جو مواد کتاب میں سے پڑھ یا پڑھوا کر explain کرنا تھا، اب وہ سمارٹ بورڈ پر دکھا سکتا ہے۔
ورک شیٹس بھی اسی الیکٹرونک بورڈ پر دکھا کر زبانی یا تحریری جواب طلب کر سکتا ہے۔
لکھنے کے تردّد سے نجات مل گئی۔ وقت کی بھی بچت ہوئی۔
نیز، ڈائیاگرام وغیرہ دکھانے کا عمل بھی آسان ہو گیا۔
اسی طرح بچّے کی سطح پر بھی ٹیب اور لیپ ٹاپ نے وقت بچا لیا (اگرچہ ہمارے یہاں سکولز کی سطح پر ٹیب، یا فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ لیجانےکی اجازت نہیں ہے کہ اِس میں مسائل ہیں۔ یعنی بیشتر سکولز میں کمپیوٹر کا استعمال بس کمپیوٹر لیب تک محدود ہے)۔
کمرے ایئر کنڈیشنڈ ہو گئے۔
سکول گیٹ پر حاضری لگانے کوthumb impression والی مشین نصب کر دی۔
انٹرنیٹ کی سہولت ادارے کے درودیوار میں عام ہو گئی۔۔۔۔ وغیرہ۔
بچّے کے لئے وہی dull روٹین ہے اور بس! نظام کا ناک نقشہ نہیں بدلا، صاحب۔ بلکہ اس کے وجود پر چڑھے کپڑے بدل دئیے گئے۔
نظام اپنی سپرٹ میں بعینہ وہی ہے جو ساٹھ برس پہلے رائج تھا۔ کیسے بدلے گا، کیا کرنا ہو گا؟ اگلی قسط میں، انشااللہ۔
پہلے ذہنوں پر طاری یہ گردوغبار جھاڑنا ضروری تھا۔