Thursday, September 17, 2015

حج کی اصل مقصدیت


حج کے لغوی معنی ہیں کہ کسی جگہ کی زیارت کیلئے قصد کرنا، یا عظمت والی جگہ کا ارادہ کرنا۔۔۔ شریعت میں حج کے معنی مخصوص مقامات کا مخصوص فعل کے ساتھ مخصوص زمانے میں ارادہ کرنا۔
اور مکہ کا مادہ "مک" ہے جس کے معنی جذب کرنا ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ مکہ ہر سرزمین و دیار سے لوگ کھینچ لاتا ہے ۔ مکہ کا ایک مادہ "مکک"جس کے معنی ہلاک ہونا اور کم ہوجانا ہےچونکہ مکہ یعنی وہ مقام ہے جس کی طرف کوئی بھی ظالم بد نیتی سے دیکھے گا اس کا انجام ہلاکت اور نابودی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
قرآن و حدیث میں حج کی فرضیت اور اہمیت بڑے واضع الفاظ میں ہے، حج کا طریقہ ، ایام، افعال ہر خاص وعام پر عیاں ہیں، اور مکہ کی فضلیت پر خود قرآن گواہ ہے،
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكاً وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ
(یقینا سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے لیےمرکز ہوا، وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت اور سرمایہ ہدایت تمام جہانوں کے لیے)
اور پھر خدا نے خود اِس شہر کی قسم کھائی ،
لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں
خدا نے اس شہر کو "اُم القری"یعنی تمام قصبوں کی ماں کہا،عربی میں اُم کا ایک معنی جَڑ بھی ہے، خدا نے مکہ کو "اُم القری" کہہ کر اسے تمام آبادیوں کی جڑ ٹھہرا دیا، خدا نے مکہ شہر کو "بلد الحرام" کہا، یعنی وہ شہر جہاں ہر طرح کا حکم ماسوائے خدا کے حکم کے حرام ہے ، خدا نے مکہ شہر کو "بلد الامین" یعنی امن والا شہر کہا۔ خدا نے مکہ شہر کو " مثابۃللناس "کہا یعنی لوگوں کی بار بار پلٹنے اور لوٹنے کی جگہ۔ خدا نے مکہ شہر کو " وضع للناس " کہا، یعنی تمام لوگوں کے مقررہ جگہ جس پر انہیں اکٹھا کیا جائے، الغرض خدا نے شہر مکہ کو مرکز بنا کر حج کو اسلام کا اہم رُکن بنا دیا تانکہ مسلمانوں میں اس حج کے توسُّط سے اس شہر کی مرکزیت کو برقرار رکھا جائے۔ اسی لئے مکہ کے تمام کے تمام نام دنیائے اسلام میں اُس کے مرکز ہونے کی واضع دلیل ہے۔
۔
ہم صرف حج کرنے والوں کو ایام ِ حج میں داخل اور حج سے مستفید سمجھتے ہیں،اور خودکو ہم ایامِ حج سے مبرا سمجھتے ہیں، ، یہ ہماری اپنی کم عقلی اور کم علمی ہے کہ جو ہم سمجھ بیٹھے ہیں کہ حج کرنے والے ہی ان خاص ایام سے بہرہ مند ہیں، مگر خدا کو اُس شخص کا بھی خیال ہےجو حج تو کرنا چاہ رہا ہے مگر حج کی استطاعت نہیں رکھتا ۔ جیسا کہ خدا نے ان ایامِ حج کی قسم کھائی ہے، جس طرح اُس نے اپنے شہر مکہ کی قسم کھائی،
وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ
مجھے فجر اور دس راتوں کی قسم ہے۔
ہم لوگ اپنی قَسم پوری کریں نہ کریں مگر خدا اپنی قَسم پوری کرنا جانتا ہے،ان ایام کی قَسم کھانے کا مقصد ہر خاص و عام پر اپنی رحمت کو نچھاورکر نا ہے ، یہ کیسے ممکن ہے، کہ کسی چیز کے مرکز میں ہنگامہ بپا ہو اور اُس مرکز سے متصل لوگ اُس ہنگامہ سے محفوظ رہیں؟ یا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مرکزیت والا انعام و اکرام سے بہرہ مند ہوں اور اُس مرکزیت سے متصل سے اُن انعامات سے بے بہرہ رہیں ؟ ہاں یہ انسان کا قانون تو ہو سکتا ہے، مگر خدا کا قانون نہیں، جب بارانِ رحمت برستی ہے تو اُس کی رحمت سے ہر اچھے بُرے، خاص و عام پر برستی ہے،ان ایام میں بارانِ رحمت صرف مرکز (مکہ) میں نہیں بلکہ مرکز سے متصل ہر شخص پر برستی ہے،
ہر سال حج مقرر کرنے کی بہت ساری وجوہات ہیں، ان سب وجوہات میں سب سے بڑی اور اہم وجہ اسلام کی مرکزیت کو قائم رکھنا ہیں، یک لباس ، یک الفاظ کے ساتھ ایک خدا کے حضور پیش ہو کر اسکی کبریت کا اعتراف کرنا ہے،اُس مرکز کی رُکنیت والوں کا اپنی استطاعت کے مطابق وہاں اپنی موجودگی اور حاضری دینا ہے ، اور جو استطاعت نہیں رکھتے اُن کی رُکنیت و شمولیت کی بھی حاضری اور گواہی دینا ہے ، حج مقرر کرنے کی اصل مقصدیت یہی ہے۔
بلکہ بات صرف حج کی نہیں ہے، بات ذوالحجہ کے ان دس اور اہم ایام کی ہے، اگر ان ایام میں مرکز (مکہ) میں مقررہ عبادت ہے تو اُس مرکزیت سے متصل ہم سب لوگوں کو بھی عبادات میں مشغول رہنے کو کہا گیا ہے،یہ بات ہمارے لئے حُکماً نہیں بلکہ ہمارے لئے تعزیماً ہے ، فرمانِ رسول ﷺ ہے،
مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ اْلأيَّامِ الْعَشْرِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وََلا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: وََلا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إَِلا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ.
ان دنوں یعنی عشرہ ذی الحجہ کا نیک عمل اللہ تعالیٰ کو تمام دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہے “ ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کی راہ میں جہاد بھی ( اسے نہیں پا سکتا ) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جہاد بھی نہیں ، مگر ایسا شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور لوٹا ہی نہیں “
صحيح / صحيح سنن الترمذي، (757)؛ صحيح سنن أبي داود، (2438)؛ صحيح سنن ابن ماجه (1753). صحیح بخاری ( 2 / 457 )
۔
اگر مرکزیت والے بال اور ناخن نہیں کٹائیں گے تو مرکز سے متصل ہم سب لوگ اُسی پروٹوکول کو اپنائے گے، یہ سب باتیں حُکماً نہیں بلکہ تعزیماً ہیں، قولِ رسول ﷺ ہے،
إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ ، فَلاَ يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا. قِيلَ لِسُفْيَانَ: فَإِنَّ بَعْضَهُمْ لاَ يَرْفَعُهُ ، قَالَ: لَكِنِّي أَرْفَعُهُ
جب (ذوالحجہ ) کا عشرہ شروع ہوجائے اور تم میں سے کوئی آدمی قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو بالکل نہ کاٹے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی آدمی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو روکے رکھے۔
صحيح مسلم، (5119)، (5118)
۔
اگر مرکزیت سے لبيك اللهم لبيك .لبيك لا شريك لك لبيك سے پکاریں جاری ہوں گی تو مرکز(مکہ) سے متصل ہم سب لوگوں کے لئے بھی قولِ رسولﷺ ہے کہ
" اللہ تعالى كے ہاں ان دس دنوں سے عظيم كوئى دن نہيں اور ان دس ايام ميں كئے جانے والے اعمال سے زيادہ كوئي عمل محبوب نہيں، لہذ اتم لاالہ الا اللہ، اور سبحان اللہ ، اور تكبيريں كثرت سے پڑھا كرو"
اسے امام احمد نے روايت كيا ہے اور اس كي سند كو احمد شاكر رحمہ اللہ نے صحيح قرار ديا ہے:
مسندامام احمد بن حنبل( 7/ 224 ) .
۔
اگر مرکز والوں (مکہ میں حج کرنے والوں) کے گناہوں کی بخشش ہے جیسا کہ قولِ رسول ﷺ ہے کہ
"جس شخص نے الله کے لیے حج کیا، (اس دوران میں) کوئی فحش گوئی کی نہ کوئی برا کام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا"۔
(صحیح البخاری، الحج، حدیث: 1521)
۔
تو اُس مرکز(مکہ) سے متصل ہم سب لوگوں کے لئے بھی قولِ رسول ﷺ ہے،
جس نے یوم التراویہ (آٹھویں ذوالحجہ) کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے ایک سال کے پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف کردے گا‘‘۔
(ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الصیام، 5 : 407، رقم : 728)
یومِ عرفہ صرف عرفات میں اللہ کے کئے جمع ہونے والوں کے مخصوص نہیں بلکہ یومِ عرفہ تو اس اُمت کے ہر خاص و عام کے مخصوص ہے، قولِ رسول ﷺ ہے، کہ
کوئی دن ایسا نہیں کہ جس دن یوم عرفہ سے زیادہ لوگوں کو دوزخ سے نجات دی جاتی ہو"۔
(صحیح مسلم)
۔
اسی طرح یومِ نحر صرف مرکز والوں کے مخصوص نہیں بلکہ یومِ نحر اس اُمت کے ہر صاحبِ استطاعت کے مخصوص ہے، اگر مرکز (مکہ) والے قربانی کا جانور دیں گے اورتو اپنے مرکز(مکہ) سے متصل ہم سب لوگ بھی قربانی کا جانور دیں گے، یہ قربانی بھی ہماری طرف سے گواہی ہے کہ ہم بھی اُس مرکز(مکہ) کی رُکنیت میں شامل ہیں،
حج کی مقصدیت، مرکزیت کو قائم کرنے کے علاوہ، اراکینِ مرکز کی رُکنیت کو بحال بھی رکھنا ہوتا ہے، اور بیت اللہ ہم سب مسلمانوں کا مرکز ہے ، اُس مرکز کی رُکنیت میں ہم سب ارکینِ مرکز شاملِ حال ہیں ، جو بیت اللہ کی طرف منہ کر پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں وہ تمام اراکینِ مرکزاپنے مرکز بیت اللہ پر مرکوز اور اُس مرکز سے متصل ہیں۔ تمام ارکینِ مرکز کا اس مرکز پر اتنا ہی حق ہے جتنا اُس میں رہنے والوں کا حق ہے،
قرآن میں خدا تعالٰی کا ارشادِ گرامی ہے کہ
وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ
مسجد حرام جسے ہم نے سب لوگو ں کے لیے بنایا ہے وہاں کا رہنے والا اور باہروالادونوں( اِس گھر کی ملکیت اور رُکنیت میں) برابر برابر ہیں۔
﴿سورہ الحج: ٢٥﴾
۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

No comments:

Post a Comment