Monday, June 8, 2015

ظالم حکمرانوں کی اطاعت یا بغاوت ۔ ۔ ۔احادیث


حدثنا محمد بن المثنى ومحمد بن بشار. قالا: حدثنا محمد بن جعفر. حدثنا شعبة عن سماك بن حرب، عن علقمة بن وائل الحضرمي، عن أبيه. قال: سأل سلمة بن يزيد الجعفي رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال: يا نبي الله! أرأيت إن قامت علينا أمراء يسألونا حقهم ويمنعونا حقنا، فما تأمرنا؟ فأعرض عنه. ثم سأله فأعرض عنه. ثم سأله في اثانية أو في الثالثة فجذبه الأشعث بن قيس. وقال (اسمعوا وأطيعوا. فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم).



سیدنا سلمہ بن یزید الجعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے پوچھا، "یا نبی اللہ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جو اپنا حق تو ہم سے وصول کریں لیکن ہمارا حق ہمیں نہ دیں تو آپ اس معاملے میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟" آپ نے اس بات پر رخ انور پھیر لیا۔ انہوں نے دوبارہ سوال کیا لیکن آپ نے پھر منہ پھیر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسری یا تیسری مرتبہ پھر پوچھا تو سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے انہیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فرمایا، "سنو اور اطاعت کرو۔ ان پر ان کے اعمال کی ذمہ داری ہے اور تم پر تمہارے اعمال کی۔"



 (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4782)

حدثني محمد بن المثنى. حدثنا أبو الوليد بن مسلم. حدثنا عبدالرحمن بن يزيد بن جابر. حدثني بسر بن عبيدالله الحضرمي؛ أنه سمع أبا إدريس الخولاني يقول: سمعت حذيفة بن اليمان يقول: كان الناس يسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير. وكنت أسأله عن الشر. مخافة أن يدركني. فقلت: يا رسول الله! إنا كنا في جاهلية وشر. فجاءنا الله بهذا الخير. فهل بعد هذا الخير شر؟ قال (نعم) فقلت: هل بعد ذلك الشر من خير؟ قال (نعم. وفيه دخن). قلت: وما دخنه؟ قال (قوم يستنون بغير سنتي. ويهدون بغير هديي. عرف منهم وتنكر). فقلت: هل بعد ذلك الخير من شر؟ قال (نعم. دعاة على أبواب جهنم. من أجابهم إليها قذفوه فيها). فقلت: يا رسول الله! صفهم لنا. قال (نعم. قوم من جلدتنا. ويتكلمون بألسنتنا) قلت: يا رسول الله! فما ترى إن أدركني ذلك! قال (تلزم جماعة المسلمين وإمامهم) فقلت: فإن لم تكن لهم جماعة ولا إمام؟ قال (فاعتزل تلك الفرق كلها. ولو أن تعض على أصل شجرة. حتى يدركك الموت، وأنت على ذلك).



سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "لوگ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے خیر سے متعلق پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے شر کے متعلق ہی سوال کیا کرتا تھا تاکہ میں برائی میں نہ پڑ جاؤں۔ میں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! ہم لوگ جاہلیت اور برائی میں تھے۔ اس کے بعد اللہ نے ہمیں بھلائی میں داخل کیا۔ کیا اس کے بعد پھر برائی ہوگی؟ آپ نے فرمایا، "ہاں"۔ میں نے عرض کیا، "کیا اس کے بعد پھر بھلائی آئے گی؟" آپ نے فرمایا، "ہاں، لیکن اس میں کچھ دھواں سا ہو گا۔" میں نے عرض کیا، "وہ دھواں سا کیا ہوگا؟
آپ نے فرمایا، "ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت پر نہیں چلیں گے اور میری ہدایت کے مطابق عمل نہیں کریں گے۔ ان میں اچھی باتیں بھی ہوں گی اور برائی بھی ہو گی۔" میں نے عرض کیا، "کیا اس خیر کے بعد پھر برائی پیدا ہو جائے گی؟" فرمایا، "ہاں۔ لوگ جہنم کے دروازوں کی طرف بلائیں گے اور جو ان کی بات مان لے گا، اسے جہنم تک پہنچا کر دم لیں گے۔" عرض کیا، "ان کی کچھ مزید خصوصیات بیان فرمائیے۔" فرمایا، "ان کی شکل و صورت ہماری جیسی ہی ہوگی اور وہ ہماری زبان ہی بولیں گے۔"
میں نے عرض کیا، "اگر میرا واسطہ ان لوگوں سے پڑ جائے تو میں کیا کروں؟" فرمایا، "مسلمانوں کی جماعت (حکومت) اور ان کے حکمران کی پیروی کرو۔" عرض کیا، "اگر حکومت اور حکمران ہی نہ رہیں (یعنی انارکی پیدا ہو جائے)۔" فرمایا، "ہر فرقے سے الگ ہو کر رہو خواہ اس کے لئے تمہیں درختوں کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں۔ اور مرتے دم تک ایسا ہی کرو (یعنی ہر صورت فتنہ و فساد اور انارکی سے دور رہو۔)"
اسی حدیث کی دوسری روایت میں بعض پہلوؤں کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔



(مسلم، كتاب الامارة، حديث 4784)






وحدثني محمد بن سهل بن عسكر التميمي. حدثنا يحيى بن حسان. ح وحدثنا عبدالله بن عبدالرحمن الدارمي. أخبرنا يحيى (وهو ابن حسان). حدثنا معاوية (يعني ابن سلام). حدثنا زيد بن سلام عن أبي سلام. قال: قال حذيفة بن اليمان: قلت: يا رسول الله! إنا كنا بشر. فجاء الله بخير. فنحن فيه. فهل من وراء هذا الخير شر؟ قال (نعم) قلت: هل من وراء ذلك الشر خير؟ قال (نعم) قلت: فهل من وراء ذلك الخير شر؟ قال (نعم) قلت: كيف؟ قال (يكون بعدي أئمة لا يهتدون بهداي، ولا يستنون بسنتي. وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين في جثمان إنس) قال قلت: كيف أصنع؟ يا رسول الله! إن أدركت ذلك؟ قال (تسمع وتطيع للأمير. وإن ضرب ظهركوأخذ مالك. فاسمع وأطع).






سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! ہم لوگ غافل تھے، پھر اللہ نے ہمیں خیر عطا فرمائی۔ اب ہم خیر کی حالت میں ہیں۔ کیا اس خیر کے بعد برائی بھی ہے؟" فرمایا، "ہاں۔" عرض کیا، "کیا اس برائی کے بعد پھر خیر ہو گا۔" فرمایا، "ہاں۔" عرض کیا، "پھر اس خیر کے بعد برائی ہوگی؟" فرمایا، "ہاں۔" عرض کیا، "وہ کیسی ہوگی؟" فرمایا، "میرے بعد ایسے حکمران پیدا ہوں گے جو میری ہدایت کی پیروی نہ کریں گے۔ وہ میری سنت پر عمل نہ کریں گے۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے اور دل شیطانوں کے ہوں گے۔" میں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! اگر میرا سامنا ان سے ہو جائے تو اس وقت میں کیا کروں؟" فرمایا، "حکمران کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اگرچہ وہ تمہاری کمر پر کوڑے بھی لگائے۔"



(مسلم، كتاب الامارة، حديث 4785)



وحدثنا شيبان بن فروخ. حدثنا عبدالوارث. حدثنا الجعد. حدثنا أبو رجاء العطاردي عن ابن عباس، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال (من كره من أميره شيئا فليصبر عليه. فإنه ليس أحد من الناس خرج من السلطان شبرا، فمات عليه، إلا مات ميتة جاهلية).



سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جسے اپنے حکمران کی کوئی بات ناگوار گزرے، وہ اس پر صبر کرے (یعنی بغاوت نہ کرے۔) جو شخص بھی حکمران کی اطاعت سے بالشت بھر بھی نکلے گا، وہ جاھلیت کی موت مرے گا۔"
(مسلم، كتاب الامارة، حديث 4791)



حکومت کی اطاعت اس کی غلامی کا نام نہیں ہے۔ ان احدیث کا یہ معنی نہیں ہے کہ حکومت کی برائیوں پر لوگ دم سادھ کر بیٹھے رہیں بلکہ ان برائیوں کو برائی سمجھنا اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کے خلاف آواز اٹھانا نیک لوگوں کی ذمہ داری ہے۔


حدثنا داود بن رشيد. حدثنا الوليد (يعني ابن مسلم). حدثنا عبدالرحمن بن يزيد بن جابر. أخبرني مولى بني فزازة (وهو زريق بن حيان)؛ أنه سمع مسلم بن قرظة، ابن عم عوف بن مالك الأشجعي، يقول: سمعت عوف بن مالك الأشجعي يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول (خيار أئمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم. وتصلون عليهم ويصلون عليكم. وشرار أئمتكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم. وتلعنونهم ويلعنونكم) قالوا قلنا: يا رسول الله! أفلا ننابذهم عند ذلك؟ قال (لا. ما أقاموا فيكم الصلاة. لا ما أقاموا فيكم الصلاة. ألا من ولى عليه وال، فرآه يأتي شيئا من معصية الله، فليكره ما يأتي من معصية الله، ولا ينزعن يدا من طاعة).
 (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4805)
سیدنا عوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا، "تمہارے بہترین حکمران وہ ہوں گے جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں۔ تم ان کے لئے دعا کرو اور وہ تمہارے لئے دعا کریں۔ تمہارے بدترین حکمران وہ ہوں گے جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں۔ تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ ہم نے عرض کیا، "ہم ایسے حکمرانوں کے خلاف بغاوت نہ کر دیں۔" فرمایا، "نہیں، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں۔ نہیں، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں۔ لیکن جب تم اپنے حکمرانوں میں اللہ تعالی کی کوئی نافرمانی ہوتی دیکھو تو اسے برائی ہی سمجھتے رہو البتہ اس کی اطاعت سے ہاتھ مت کھینچو (کیونکہ اس سے پہلے سے زیادہ بڑی برائی یعنی انارکی جنم لے گی۔)

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : صِنْفَانِ مِنْ أُمَّتِي لَنْ تَنَالَهُمَا شَفَاعَتِي : إِمَامٌ ظلُوْمٌ وَکُلُّ غَالٍ مَارِقٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالْأَوْسَطِ. وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے دو قسم کے لوگوں کو ہرگز میری شفاعت حاصل نہیں ہوگی : ظالم حکمران اور دین کی حدوں سے نکلنے والا ہر شخص۔‘‘



اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری اور ہیثمی نے کہا ہے : اس حدیث کے رُواۃ ثقہ ہیں.

No comments:

Post a Comment