Saturday, August 29, 2015

معرفت کا سفر

از شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ
▬▬▬▬▬▬▬▬
''جب بندہ کسی بلا یا مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پہلے خود اس سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر نجات نہیں پاتا تو مخلوقات میں اوروں سےمدد مانگنا ہے مثلاً بادشاہوں یا حاکموں یا دنیاداروں یا امیروں سے اور دکھ درد میں طبیبوں سے۔ جب ان سے بھی کام نہیں نکلتا۔اس وقت اپنے پروردگار کی طرف دعا و گریہ زاری و حمد و ثنا کے ساتھ رجوع کرتا ہے۔ پھر جب خدا کی طرف سے بھی مدد نظر نہیں آتی تو (بے بس ہوکر) خدا کا ہی ہورہتا ہے۔ ہمیشہ سوال و دعا ، اور گریہ زاری اور ستائش و اظہار حاجتمندی رجاء و خوف کے ساتھ کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو دعا سے تھکا دیتا ہے اور قبول نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ تمام اسباب علیٰحدہ ہوجاتے ہیں۔ اس وقت اس میں قضا و قدر کا نفاذ ہوتا ہے اور اس کے اندر کام کرتا ہے تب بندہ کل اسباب و حرکات سے بے پروا ہوجاتا ہے اور روح صرف رہ جاتی ہے۔ اسے فعل حق کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ ضرور بالضرور صاحب یقین موحد ہوتا ہے۔ قطعی طور پر جانتا ہے کہ درحقیقت خدا کے سوا نہ کوئی کچھ کرنے والا ہے ، نہ حرکت و سکون دینے والا ہے۔ نہ اس کے سوا کسی کے ہاتھ میں اچھائی ، بُرائی،نفع و نقصان، بخشش و حرمان، کشائش و بندش ، موت و زندگی، عزت وذلت،غناو فقر۔
۔
یوں تقدیر کے اترتے وقت بندہ کی ایسی حالت ہوتی ہے، جیسے شیرخوار بچہ دایا کی ہاتھ میں یا مردہ غُسّال کے ہاتھ میں یا (پولو کی) گیند(چگان)یعنی سوار کے ہاتھ میں، اور انہیں بار بار الٹا یا پلٹا یا جاتا ہے اور انہیں ایک علیحدہ اپنی صورت دے دی جاتی ہے۔ اس میں اپنی طرف سے کوئی حرکت نہیں نہ اپنے لیے نہ کسی او رکے لیے ،یعنی بندہ اپنے مالک کے فعل میں اپنے نفس میں غائب ہوجاتا ہے او راپنے مالک او راس کے فعل کے سوا نہ کچھ دیکھتا سنتا ہے، نہ کچھ سوچتا سمجھتا ہے۔ اگر دیکھتا ہے تو اس کی صفت ، اگر سنتا ہے تو اس کا کلام، اس کے علم سے ہر چیز کو جانتا ہے۔ اس کی نعمت سے لطف اٹھاتا ہے۔ اس کے قرب سے سعادت پاتا ہے۔ اس کے وعدہ سے خوش ہوتا ہے، سکون او راطمینان حاصل کرتا ہے۔ اس کی باتوں سےمانوس ہوتا ہے اوراس کے غیر سے نفرت کرتا ہے۔ اس کی یاد میں سرنگوں ہوتا ہے اور جی لگاتا ہے ۔اسی کی ذات پراعتماد اور بھروسہ کرتا ہے۔اس کےنور معرفت سے ہدایت پاتا او راس کا خرقہ و لباس پہنتا ہے۔ اس کے علوم عجیب و نادر پرمطلع ہوتا ہے۔ اس کی قدرت کے اسرار سے مشرف ہوتا ہے اس کی ذات پاک سے سنتا ہے اسے یاد رکھتا ہے۔ پھر ان (نعمتوں) پر حمد و ثنا و شکر و سپاس بجا لاتا ہے۔''

Tuesday, August 11, 2015

Humans are more self-sympathizer & less self-accountable

Self-sympathy is an exaggeratedly negative thought, which overshadows our self-accountability. Self-sympathy spouts victimizational feelings as if an unfair circumstance disrupted our lives away, and expecting condolences of others….with self-sympathy we feel that our situation is worsen than other people’s and we always blame our circumstances for what they are…in short, self-sympathy is amalgamation of eclipsed self-accountability, gravity of an unfair loss and perpetual sadness…
on other side Allah says in Quran,
Indeed a man is witness against himself (about his corruption), whatever the excuses he may fabricate (in denial of his corruption).
(Surah Al-Qiyama : 14, 15)