Thursday, September 17, 2015

حج کی اصل مقصدیت


حج کے لغوی معنی ہیں کہ کسی جگہ کی زیارت کیلئے قصد کرنا، یا عظمت والی جگہ کا ارادہ کرنا۔۔۔ شریعت میں حج کے معنی مخصوص مقامات کا مخصوص فعل کے ساتھ مخصوص زمانے میں ارادہ کرنا۔
اور مکہ کا مادہ "مک" ہے جس کے معنی جذب کرنا ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ مکہ ہر سرزمین و دیار سے لوگ کھینچ لاتا ہے ۔ مکہ کا ایک مادہ "مکک"جس کے معنی ہلاک ہونا اور کم ہوجانا ہےچونکہ مکہ یعنی وہ مقام ہے جس کی طرف کوئی بھی ظالم بد نیتی سے دیکھے گا اس کا انجام ہلاکت اور نابودی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
قرآن و حدیث میں حج کی فرضیت اور اہمیت بڑے واضع الفاظ میں ہے، حج کا طریقہ ، ایام، افعال ہر خاص وعام پر عیاں ہیں، اور مکہ کی فضلیت پر خود قرآن گواہ ہے،
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكاً وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ
(یقینا سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے لیےمرکز ہوا، وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت اور سرمایہ ہدایت تمام جہانوں کے لیے)
اور پھر خدا نے خود اِس شہر کی قسم کھائی ،
لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں
خدا نے اس شہر کو "اُم القری"یعنی تمام قصبوں کی ماں کہا،عربی میں اُم کا ایک معنی جَڑ بھی ہے، خدا نے مکہ کو "اُم القری" کہہ کر اسے تمام آبادیوں کی جڑ ٹھہرا دیا، خدا نے مکہ شہر کو "بلد الحرام" کہا، یعنی وہ شہر جہاں ہر طرح کا حکم ماسوائے خدا کے حکم کے حرام ہے ، خدا نے مکہ شہر کو "بلد الامین" یعنی امن والا شہر کہا۔ خدا نے مکہ شہر کو " مثابۃللناس "کہا یعنی لوگوں کی بار بار پلٹنے اور لوٹنے کی جگہ۔ خدا نے مکہ شہر کو " وضع للناس " کہا، یعنی تمام لوگوں کے مقررہ جگہ جس پر انہیں اکٹھا کیا جائے، الغرض خدا نے شہر مکہ کو مرکز بنا کر حج کو اسلام کا اہم رُکن بنا دیا تانکہ مسلمانوں میں اس حج کے توسُّط سے اس شہر کی مرکزیت کو برقرار رکھا جائے۔ اسی لئے مکہ کے تمام کے تمام نام دنیائے اسلام میں اُس کے مرکز ہونے کی واضع دلیل ہے۔
۔
ہم صرف حج کرنے والوں کو ایام ِ حج میں داخل اور حج سے مستفید سمجھتے ہیں،اور خودکو ہم ایامِ حج سے مبرا سمجھتے ہیں، ، یہ ہماری اپنی کم عقلی اور کم علمی ہے کہ جو ہم سمجھ بیٹھے ہیں کہ حج کرنے والے ہی ان خاص ایام سے بہرہ مند ہیں، مگر خدا کو اُس شخص کا بھی خیال ہےجو حج تو کرنا چاہ رہا ہے مگر حج کی استطاعت نہیں رکھتا ۔ جیسا کہ خدا نے ان ایامِ حج کی قسم کھائی ہے، جس طرح اُس نے اپنے شہر مکہ کی قسم کھائی،
وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ
مجھے فجر اور دس راتوں کی قسم ہے۔
ہم لوگ اپنی قَسم پوری کریں نہ کریں مگر خدا اپنی قَسم پوری کرنا جانتا ہے،ان ایام کی قَسم کھانے کا مقصد ہر خاص و عام پر اپنی رحمت کو نچھاورکر نا ہے ، یہ کیسے ممکن ہے، کہ کسی چیز کے مرکز میں ہنگامہ بپا ہو اور اُس مرکز سے متصل لوگ اُس ہنگامہ سے محفوظ رہیں؟ یا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مرکزیت والا انعام و اکرام سے بہرہ مند ہوں اور اُس مرکزیت سے متصل سے اُن انعامات سے بے بہرہ رہیں ؟ ہاں یہ انسان کا قانون تو ہو سکتا ہے، مگر خدا کا قانون نہیں، جب بارانِ رحمت برستی ہے تو اُس کی رحمت سے ہر اچھے بُرے، خاص و عام پر برستی ہے،ان ایام میں بارانِ رحمت صرف مرکز (مکہ) میں نہیں بلکہ مرکز سے متصل ہر شخص پر برستی ہے،
ہر سال حج مقرر کرنے کی بہت ساری وجوہات ہیں، ان سب وجوہات میں سب سے بڑی اور اہم وجہ اسلام کی مرکزیت کو قائم رکھنا ہیں، یک لباس ، یک الفاظ کے ساتھ ایک خدا کے حضور پیش ہو کر اسکی کبریت کا اعتراف کرنا ہے،اُس مرکز کی رُکنیت والوں کا اپنی استطاعت کے مطابق وہاں اپنی موجودگی اور حاضری دینا ہے ، اور جو استطاعت نہیں رکھتے اُن کی رُکنیت و شمولیت کی بھی حاضری اور گواہی دینا ہے ، حج مقرر کرنے کی اصل مقصدیت یہی ہے۔
بلکہ بات صرف حج کی نہیں ہے، بات ذوالحجہ کے ان دس اور اہم ایام کی ہے، اگر ان ایام میں مرکز (مکہ) میں مقررہ عبادت ہے تو اُس مرکزیت سے متصل ہم سب لوگوں کو بھی عبادات میں مشغول رہنے کو کہا گیا ہے،یہ بات ہمارے لئے حُکماً نہیں بلکہ ہمارے لئے تعزیماً ہے ، فرمانِ رسول ﷺ ہے،
مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ اْلأيَّامِ الْعَشْرِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وََلا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: وََلا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إَِلا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ.
ان دنوں یعنی عشرہ ذی الحجہ کا نیک عمل اللہ تعالیٰ کو تمام دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہے “ ، لوگوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کی راہ میں جہاد بھی ( اسے نہیں پا سکتا ) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جہاد بھی نہیں ، مگر ایسا شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور لوٹا ہی نہیں “
صحيح / صحيح سنن الترمذي، (757)؛ صحيح سنن أبي داود، (2438)؛ صحيح سنن ابن ماجه (1753). صحیح بخاری ( 2 / 457 )
۔
اگر مرکزیت والے بال اور ناخن نہیں کٹائیں گے تو مرکز سے متصل ہم سب لوگ اُسی پروٹوکول کو اپنائے گے، یہ سب باتیں حُکماً نہیں بلکہ تعزیماً ہیں، قولِ رسول ﷺ ہے،
إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ ، فَلاَ يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا. قِيلَ لِسُفْيَانَ: فَإِنَّ بَعْضَهُمْ لاَ يَرْفَعُهُ ، قَالَ: لَكِنِّي أَرْفَعُهُ
جب (ذوالحجہ ) کا عشرہ شروع ہوجائے اور تم میں سے کوئی آدمی قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو بالکل نہ کاٹے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی آدمی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو روکے رکھے۔
صحيح مسلم، (5119)، (5118)
۔
اگر مرکزیت سے لبيك اللهم لبيك .لبيك لا شريك لك لبيك سے پکاریں جاری ہوں گی تو مرکز(مکہ) سے متصل ہم سب لوگوں کے لئے بھی قولِ رسولﷺ ہے کہ
" اللہ تعالى كے ہاں ان دس دنوں سے عظيم كوئى دن نہيں اور ان دس ايام ميں كئے جانے والے اعمال سے زيادہ كوئي عمل محبوب نہيں، لہذ اتم لاالہ الا اللہ، اور سبحان اللہ ، اور تكبيريں كثرت سے پڑھا كرو"
اسے امام احمد نے روايت كيا ہے اور اس كي سند كو احمد شاكر رحمہ اللہ نے صحيح قرار ديا ہے:
مسندامام احمد بن حنبل( 7/ 224 ) .
۔
اگر مرکز والوں (مکہ میں حج کرنے والوں) کے گناہوں کی بخشش ہے جیسا کہ قولِ رسول ﷺ ہے کہ
"جس شخص نے الله کے لیے حج کیا، (اس دوران میں) کوئی فحش گوئی کی نہ کوئی برا کام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا"۔
(صحیح البخاری، الحج، حدیث: 1521)
۔
تو اُس مرکز(مکہ) سے متصل ہم سب لوگوں کے لئے بھی قولِ رسول ﷺ ہے،
جس نے یوم التراویہ (آٹھویں ذوالحجہ) کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے ایک سال کے پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف کردے گا‘‘۔
(ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الصیام، 5 : 407، رقم : 728)
یومِ عرفہ صرف عرفات میں اللہ کے کئے جمع ہونے والوں کے مخصوص نہیں بلکہ یومِ عرفہ تو اس اُمت کے ہر خاص و عام کے مخصوص ہے، قولِ رسول ﷺ ہے، کہ
کوئی دن ایسا نہیں کہ جس دن یوم عرفہ سے زیادہ لوگوں کو دوزخ سے نجات دی جاتی ہو"۔
(صحیح مسلم)
۔
اسی طرح یومِ نحر صرف مرکز والوں کے مخصوص نہیں بلکہ یومِ نحر اس اُمت کے ہر صاحبِ استطاعت کے مخصوص ہے، اگر مرکز (مکہ) والے قربانی کا جانور دیں گے اورتو اپنے مرکز(مکہ) سے متصل ہم سب لوگ بھی قربانی کا جانور دیں گے، یہ قربانی بھی ہماری طرف سے گواہی ہے کہ ہم بھی اُس مرکز(مکہ) کی رُکنیت میں شامل ہیں،
حج کی مقصدیت، مرکزیت کو قائم کرنے کے علاوہ، اراکینِ مرکز کی رُکنیت کو بحال بھی رکھنا ہوتا ہے، اور بیت اللہ ہم سب مسلمانوں کا مرکز ہے ، اُس مرکز کی رُکنیت میں ہم سب ارکینِ مرکز شاملِ حال ہیں ، جو بیت اللہ کی طرف منہ کر پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں وہ تمام اراکینِ مرکزاپنے مرکز بیت اللہ پر مرکوز اور اُس مرکز سے متصل ہیں۔ تمام ارکینِ مرکز کا اس مرکز پر اتنا ہی حق ہے جتنا اُس میں رہنے والوں کا حق ہے،
قرآن میں خدا تعالٰی کا ارشادِ گرامی ہے کہ
وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ
مسجد حرام جسے ہم نے سب لوگو ں کے لیے بنایا ہے وہاں کا رہنے والا اور باہروالادونوں( اِس گھر کی ملکیت اور رُکنیت میں) برابر برابر ہیں۔
﴿سورہ الحج: ٢٥﴾
۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

Friday, September 11, 2015

An amazing advice by the great scholar, Ibn Al-Qayyim:

 "A friend will not (literally) share your struggles, and a loved one cannot physically take away your pain, and a close one will not stay up the night on your behalf...so look after your self, protect it, nurture it... and don't give life's events more than what they are really worth... Be certain that when you break no one will heal you except you, and when you are defeated no one will give you victory except your determination... your ability to stand up again and carry on is your responsibility... Do not look for your self worth in the eyes of people; look for your worth from within your conscience ... if your conscience is at peace then you will ascend high... and if you truly know yourself then what is said about you won't harm you.
Do not carry the worries of this life... because this is for Allah... and do not carry the worries of sustenance because it is from Allah... and do not carry the anxiety for the future because it is in the Hands of Allah...
Carry one thing: How to Please Allah. Because if you please Him, He Pleases you, fulfills you and enriches you. Do not weep from a life that made your heart weep... just say "oh Allah... compensate me with good in this life and the hereafter".
Sadness departs with a sajdah... happiness comes with a sincere du'a... Allah Does Not forget the good you do...nor Does He Forget the good you did to others and the pain you relieved them from... Nor Will He Forget the eye which was about to cry but you made it laugh...
Live your life with this principle: Be good even if you don't receive good... not because of other's sake but because Allah Loves the good doers".

Tuesday, September 1, 2015

Dost

Kahoon dost se dost ki baat kya kya
Rahi dushmanon se mulaaqaat kya kya
What wondrous secrets should I speak of to the Friend who lives in His friend’s heart?
What moment was spent in the thought of anything but Him?
Wuh ‘ishwe wuh ghamze
wuh naghme wuh jalwe
Talab kar rahe ham- aafaat kya kya
Those heart-stopping glances, those mischievous graces
That rapturous music, that dazzling unveiling
What wondrous calamities we are seeking!
Jahaan mujh ko aaya khayaal aa gaye wuh
Dikhaayi hain dil ne karaamaat kya kya
As soon as His thought appeared, He appeared in my heart
what wondrous miracles the heart has accomplished!
Nah thi guftugu darmiyaan phir bhi un se
Pas-i parda-i dil hui baat kya kya
Though nothing was said to Him face to face
What wondrous conversation occurred behind the curtain of the heart!
Kahoon dost se dost ki baat kya kya
What wondrous secrets should I speak of to the Friend who lives in His friend’s heart? 

Saturday, August 29, 2015

معرفت کا سفر

از شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ
▬▬▬▬▬▬▬▬
''جب بندہ کسی بلا یا مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پہلے خود اس سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر نجات نہیں پاتا تو مخلوقات میں اوروں سےمدد مانگنا ہے مثلاً بادشاہوں یا حاکموں یا دنیاداروں یا امیروں سے اور دکھ درد میں طبیبوں سے۔ جب ان سے بھی کام نہیں نکلتا۔اس وقت اپنے پروردگار کی طرف دعا و گریہ زاری و حمد و ثنا کے ساتھ رجوع کرتا ہے۔ پھر جب خدا کی طرف سے بھی مدد نظر نہیں آتی تو (بے بس ہوکر) خدا کا ہی ہورہتا ہے۔ ہمیشہ سوال و دعا ، اور گریہ زاری اور ستائش و اظہار حاجتمندی رجاء و خوف کے ساتھ کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو دعا سے تھکا دیتا ہے اور قبول نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ تمام اسباب علیٰحدہ ہوجاتے ہیں۔ اس وقت اس میں قضا و قدر کا نفاذ ہوتا ہے اور اس کے اندر کام کرتا ہے تب بندہ کل اسباب و حرکات سے بے پروا ہوجاتا ہے اور روح صرف رہ جاتی ہے۔ اسے فعل حق کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ ضرور بالضرور صاحب یقین موحد ہوتا ہے۔ قطعی طور پر جانتا ہے کہ درحقیقت خدا کے سوا نہ کوئی کچھ کرنے والا ہے ، نہ حرکت و سکون دینے والا ہے۔ نہ اس کے سوا کسی کے ہاتھ میں اچھائی ، بُرائی،نفع و نقصان، بخشش و حرمان، کشائش و بندش ، موت و زندگی، عزت وذلت،غناو فقر۔
۔
یوں تقدیر کے اترتے وقت بندہ کی ایسی حالت ہوتی ہے، جیسے شیرخوار بچہ دایا کی ہاتھ میں یا مردہ غُسّال کے ہاتھ میں یا (پولو کی) گیند(چگان)یعنی سوار کے ہاتھ میں، اور انہیں بار بار الٹا یا پلٹا یا جاتا ہے اور انہیں ایک علیحدہ اپنی صورت دے دی جاتی ہے۔ اس میں اپنی طرف سے کوئی حرکت نہیں نہ اپنے لیے نہ کسی او رکے لیے ،یعنی بندہ اپنے مالک کے فعل میں اپنے نفس میں غائب ہوجاتا ہے او راپنے مالک او راس کے فعل کے سوا نہ کچھ دیکھتا سنتا ہے، نہ کچھ سوچتا سمجھتا ہے۔ اگر دیکھتا ہے تو اس کی صفت ، اگر سنتا ہے تو اس کا کلام، اس کے علم سے ہر چیز کو جانتا ہے۔ اس کی نعمت سے لطف اٹھاتا ہے۔ اس کے قرب سے سعادت پاتا ہے۔ اس کے وعدہ سے خوش ہوتا ہے، سکون او راطمینان حاصل کرتا ہے۔ اس کی باتوں سےمانوس ہوتا ہے اوراس کے غیر سے نفرت کرتا ہے۔ اس کی یاد میں سرنگوں ہوتا ہے اور جی لگاتا ہے ۔اسی کی ذات پراعتماد اور بھروسہ کرتا ہے۔اس کےنور معرفت سے ہدایت پاتا او راس کا خرقہ و لباس پہنتا ہے۔ اس کے علوم عجیب و نادر پرمطلع ہوتا ہے۔ اس کی قدرت کے اسرار سے مشرف ہوتا ہے اس کی ذات پاک سے سنتا ہے اسے یاد رکھتا ہے۔ پھر ان (نعمتوں) پر حمد و ثنا و شکر و سپاس بجا لاتا ہے۔''

Tuesday, August 11, 2015

Humans are more self-sympathizer & less self-accountable

Self-sympathy is an exaggeratedly negative thought, which overshadows our self-accountability. Self-sympathy spouts victimizational feelings as if an unfair circumstance disrupted our lives away, and expecting condolences of others….with self-sympathy we feel that our situation is worsen than other people’s and we always blame our circumstances for what they are…in short, self-sympathy is amalgamation of eclipsed self-accountability, gravity of an unfair loss and perpetual sadness…
on other side Allah says in Quran,
Indeed a man is witness against himself (about his corruption), whatever the excuses he may fabricate (in denial of his corruption).
(Surah Al-Qiyama : 14, 15)

Wednesday, July 29, 2015

عقل بے مہار

عقل پسند علماء سے کوئی یہ پوچھے ،بھائی ذرا اس آیت کی تفسیر کر دینا۔۔۔
وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ
یا پھر اس آیت کی
ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآ ئً وَّ الْقَمَرَ نُوْ رً ا
یا پھر اس آیت کی
اَ لَمْ تَرَ وْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰ تٍ طِبَا قًا ہ وَّ جَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْ رًا وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَ اجًا ہ
یا پھر اس آیت کی
لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَآ اَنْ تُد ْرِکَ الْقَمَرَ وَ لَا الَّیْلُ سَا بِقُ النَّھَا رِط وَکُلُّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْ نَ ہ
یا پھر اس آیت کی
وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍٍّ لَّھَا ط ذٰلِکَ تَقْدِ یْرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیْمِ
۔
کسی نے مستشرقین کی کتابوں سے اُٹھتے ہوئے اعتراضات کا اردو ترجمہ پڑھنا ہو تو اپنے چند عقل پسند علماء کو پڑھ لیا کرے، اس سے آپ کو انداز ہو جائے گا، کہ یہ لوگ مغربی افکار کو اپنانے میں کہاں تک جا سکتے ہیں۔۔۔ قرآن نہ سائنس سے جدا ہے نہ سائنس قرآن سے جدا ہے، ڈارون نے جن مسلمان سائنسدانوں سے نظریہٗ ارتقاء لیا ان مسلمان سائنسدانوں نے قرآن سے ہی استدلال لیا، وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا ، حضرت ابنِ عباسؓ کا یہ قول ہے کہ القرآن یفسرہ الزمان" زمانہ قرآن کی تفسیر کرتا ہے، آئن سائن نے خدا کے معاملہ میں بڑھی منافقت سے کام لیا مگر ایک بار وہ بھی کہنے پر مجبور ہو گیا کہ
Science without religion is lame, religion without science is blind.
۔
آخر عقل اتنی اہم ہے تو پھر قرآن کیوں نازل ہوا؟ اور اگر قرآن ہی اتنا اہم ہے تو عقل کیوں دی گئی؟ اگر یہ دونوں ہی غیر اہم ہیں تو جزا اور سزا کس بات کی؟ کیا خدا نے قرآن میں یہ نہیں کہہ رہا، کہ یہ کتاب عقل والوں کے لئے ایک مہار ہے؟
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ
ایک کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی بڑی برکت والی تاکہ وہ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ عقلمند نصحیت حاصل کریں۔
۔
چند اہلِ لغت علماء حضرات کی بیچارگی کا ہمیں خوب اندازہ ہے، ساری زندگی لغت سے سر نہیں نکالا اور حدیث کو بھی ترک کیا اور سائنس کی کتاب کو بھی کبھی ہاتھ میں نہیں لیا، اور قرآن کو بس اخلاقیات کی کتاب بنا دیا، اور عقل کو قرآن سے جدا کر دیا۔
اخلاقیات تو بائبل بھی سکھا رہی ہے اور تورات بھی، ایک سے بڑھ کر ایک اخلاق پر مبنی بات ہمیں ان متروک صحیفوں سے مل جاتی ہیں، پھرہم آخر قرآن ہی کیوں پڑھیں، اگر بات صرف اخلاقیات کی ہے؟ اور اگر بات عقلیات کی ہے، تو عقل کی بات افلاطون نے بھی، عقل کی بات سقراط نے بھی کی، عقل کی بات خود وہ عقل پسند علماء حضرات بھی شاد و نادر کر ہی دیتے ہیں، جیسے عقل کی بات بعض اوقات جھل اور بے وقوف بھی کر دیتے ہیں تو کیا ہم انہیں عاقل کا درجہ دے دیں گے؟
۔
ہمارے چند عقل پسند علماء کی چاہت ہے کہ قرآن کو واپس پچھلی صدیوں کو منتقل کر دیا جائے، کیوں کہ اب سائنس اور قرآن کا کوئی مقابلہ نہیں، یہ دونوں کتابیں الگ الگ ہیں، آج کا عقلمند انسان جس کو ہم سائنسدان سمجھتے ہیں وہ تو کہہ رہا ہے کہ خدا کا وجود نہیں ہے، مذہب ایک ذہنی بیماری اور ذہنی پسماندگی کا دوسرا نام ہے، اور پیغمبروں نے نہ تو فلکیات کی بات کی اور نہ طییعات کی اور نہ حیاتیات کی، اور نہ ہی ان لوگوں کو ان چیزوں کا ادراک تھا جو آج ایک عقلمند انسان کو ہے، مگر ان لوگوں نے خدا کا اتنا بڑا دعویٰ کیوں نہیں پڑھا،
وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ
کہ ہم نے ہر زندہ شی کو پانی سے پیدا کیا
۔
ایک نہیں اس طرح کے خدا کے بیسیوں دعوے قرآن میں درج ہیں، اور آخر علمِ فلکیات، طییعات اور حیاتیات کو جاننے والے عقلمند انسان پانی ہی کو کیوں دوسرے سیاروں پر تلاش کر رہے ہیں؟ جو بات سمجھنے کے لئے انسان کو ہزاروں سال لگے وہ بات قرآن نے محض 1400 سال پہلے بتا دی، اور یہ ہمارے چند مٹھی بھرعلمائے سوء، جنہوں نے آج تک سائنس کی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا، انہوں نے ڈارون کے نظریہ کو لادینی ٹھہرایا، حالانکہ ڈارون خود اہلِ کتاب میں سے تھا، جس نے خدا کا انکار نہیں کیا، ان لوگوں کو کیا پتا کہ قرآن اور سائنس ہم معنی ہیں اور جتنی ان دونوں میں مطابقت قائم ہو سکتی ہے وہ کسی اور کتاب میں نہیں، یہ لوگ یہ بات بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سائنس غلطی نہیں کرتی، بلکہ سائنسدان غلطی کرتا ہیں اور اسی طرح قرآن غلطی نہیں کرتا بلکہ قرآن کو پڑھنے والا اور سمجھنے والا غلطی کرتا ہے،
۔
یہاں ایک سائنسدان کی بات نقل کرنا بہت ضروری ہے، جس نے سائنس کی قرآن سے مطابقت دیکھ کر اسلام قبول کیا، نہ تو وہ شخص کسی مبلغ کی تبلیغ سے متاثر ہوا اور نہ ہی اسلام کے کسی اور اخلاقی پہلو سے، اُس شخص کا کہنا ہے،
Quran contains no statements contradicting established scientific facts. Quran is in agreement with scientific facts, while the Bible is not. In Islam, science and religion have always been “twin sisters”
Prof. Doc. Maurice Bucaille
Book: The Bible, The Qur'an and Science
ایک سائنسدان یہ کہہ رہا ہے، اور ہمارے علمائے سوء تو کچھ اور کہہ رہے ہیں، عقل شتر بے مہار نہیں، عقل کو بھی ہمیشہ ایک مہار کی ضرورت رہتی ہے، جیسا کہ آئن سٹائن نے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کہہ ہی دیا۔
Science without religion is lame, religion without science is blind.

Monday, June 8, 2015

ظالم حکمرانوں کی اطاعت یا بغاوت ۔ ۔ ۔احادیث


حدثنا محمد بن المثنى ومحمد بن بشار. قالا: حدثنا محمد بن جعفر. حدثنا شعبة عن سماك بن حرب، عن علقمة بن وائل الحضرمي، عن أبيه. قال: سأل سلمة بن يزيد الجعفي رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال: يا نبي الله! أرأيت إن قامت علينا أمراء يسألونا حقهم ويمنعونا حقنا، فما تأمرنا؟ فأعرض عنه. ثم سأله فأعرض عنه. ثم سأله في اثانية أو في الثالثة فجذبه الأشعث بن قيس. وقال (اسمعوا وأطيعوا. فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم).



سیدنا سلمہ بن یزید الجعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے پوچھا، "یا نبی اللہ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جو اپنا حق تو ہم سے وصول کریں لیکن ہمارا حق ہمیں نہ دیں تو آپ اس معاملے میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟" آپ نے اس بات پر رخ انور پھیر لیا۔ انہوں نے دوبارہ سوال کیا لیکن آپ نے پھر منہ پھیر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسری یا تیسری مرتبہ پھر پوچھا تو سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے انہیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فرمایا، "سنو اور اطاعت کرو۔ ان پر ان کے اعمال کی ذمہ داری ہے اور تم پر تمہارے اعمال کی۔"



 (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4782)

حدثني محمد بن المثنى. حدثنا أبو الوليد بن مسلم. حدثنا عبدالرحمن بن يزيد بن جابر. حدثني بسر بن عبيدالله الحضرمي؛ أنه سمع أبا إدريس الخولاني يقول: سمعت حذيفة بن اليمان يقول: كان الناس يسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير. وكنت أسأله عن الشر. مخافة أن يدركني. فقلت: يا رسول الله! إنا كنا في جاهلية وشر. فجاءنا الله بهذا الخير. فهل بعد هذا الخير شر؟ قال (نعم) فقلت: هل بعد ذلك الشر من خير؟ قال (نعم. وفيه دخن). قلت: وما دخنه؟ قال (قوم يستنون بغير سنتي. ويهدون بغير هديي. عرف منهم وتنكر). فقلت: هل بعد ذلك الخير من شر؟ قال (نعم. دعاة على أبواب جهنم. من أجابهم إليها قذفوه فيها). فقلت: يا رسول الله! صفهم لنا. قال (نعم. قوم من جلدتنا. ويتكلمون بألسنتنا) قلت: يا رسول الله! فما ترى إن أدركني ذلك! قال (تلزم جماعة المسلمين وإمامهم) فقلت: فإن لم تكن لهم جماعة ولا إمام؟ قال (فاعتزل تلك الفرق كلها. ولو أن تعض على أصل شجرة. حتى يدركك الموت، وأنت على ذلك).



سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "لوگ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے خیر سے متعلق پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے شر کے متعلق ہی سوال کیا کرتا تھا تاکہ میں برائی میں نہ پڑ جاؤں۔ میں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! ہم لوگ جاہلیت اور برائی میں تھے۔ اس کے بعد اللہ نے ہمیں بھلائی میں داخل کیا۔ کیا اس کے بعد پھر برائی ہوگی؟ آپ نے فرمایا، "ہاں"۔ میں نے عرض کیا، "کیا اس کے بعد پھر بھلائی آئے گی؟" آپ نے فرمایا، "ہاں، لیکن اس میں کچھ دھواں سا ہو گا۔" میں نے عرض کیا، "وہ دھواں سا کیا ہوگا؟
آپ نے فرمایا، "ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت پر نہیں چلیں گے اور میری ہدایت کے مطابق عمل نہیں کریں گے۔ ان میں اچھی باتیں بھی ہوں گی اور برائی بھی ہو گی۔" میں نے عرض کیا، "کیا اس خیر کے بعد پھر برائی پیدا ہو جائے گی؟" فرمایا، "ہاں۔ لوگ جہنم کے دروازوں کی طرف بلائیں گے اور جو ان کی بات مان لے گا، اسے جہنم تک پہنچا کر دم لیں گے۔" عرض کیا، "ان کی کچھ مزید خصوصیات بیان فرمائیے۔" فرمایا، "ان کی شکل و صورت ہماری جیسی ہی ہوگی اور وہ ہماری زبان ہی بولیں گے۔"
میں نے عرض کیا، "اگر میرا واسطہ ان لوگوں سے پڑ جائے تو میں کیا کروں؟" فرمایا، "مسلمانوں کی جماعت (حکومت) اور ان کے حکمران کی پیروی کرو۔" عرض کیا، "اگر حکومت اور حکمران ہی نہ رہیں (یعنی انارکی پیدا ہو جائے)۔" فرمایا، "ہر فرقے سے الگ ہو کر رہو خواہ اس کے لئے تمہیں درختوں کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں۔ اور مرتے دم تک ایسا ہی کرو (یعنی ہر صورت فتنہ و فساد اور انارکی سے دور رہو۔)"
اسی حدیث کی دوسری روایت میں بعض پہلوؤں کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔



(مسلم، كتاب الامارة، حديث 4784)






وحدثني محمد بن سهل بن عسكر التميمي. حدثنا يحيى بن حسان. ح وحدثنا عبدالله بن عبدالرحمن الدارمي. أخبرنا يحيى (وهو ابن حسان). حدثنا معاوية (يعني ابن سلام). حدثنا زيد بن سلام عن أبي سلام. قال: قال حذيفة بن اليمان: قلت: يا رسول الله! إنا كنا بشر. فجاء الله بخير. فنحن فيه. فهل من وراء هذا الخير شر؟ قال (نعم) قلت: هل من وراء ذلك الشر خير؟ قال (نعم) قلت: فهل من وراء ذلك الخير شر؟ قال (نعم) قلت: كيف؟ قال (يكون بعدي أئمة لا يهتدون بهداي، ولا يستنون بسنتي. وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين في جثمان إنس) قال قلت: كيف أصنع؟ يا رسول الله! إن أدركت ذلك؟ قال (تسمع وتطيع للأمير. وإن ضرب ظهركوأخذ مالك. فاسمع وأطع).






سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! ہم لوگ غافل تھے، پھر اللہ نے ہمیں خیر عطا فرمائی۔ اب ہم خیر کی حالت میں ہیں۔ کیا اس خیر کے بعد برائی بھی ہے؟" فرمایا، "ہاں۔" عرض کیا، "کیا اس برائی کے بعد پھر خیر ہو گا۔" فرمایا، "ہاں۔" عرض کیا، "پھر اس خیر کے بعد برائی ہوگی؟" فرمایا، "ہاں۔" عرض کیا، "وہ کیسی ہوگی؟" فرمایا، "میرے بعد ایسے حکمران پیدا ہوں گے جو میری ہدایت کی پیروی نہ کریں گے۔ وہ میری سنت پر عمل نہ کریں گے۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے اور دل شیطانوں کے ہوں گے۔" میں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! اگر میرا سامنا ان سے ہو جائے تو اس وقت میں کیا کروں؟" فرمایا، "حکمران کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اگرچہ وہ تمہاری کمر پر کوڑے بھی لگائے۔"



(مسلم، كتاب الامارة، حديث 4785)



وحدثنا شيبان بن فروخ. حدثنا عبدالوارث. حدثنا الجعد. حدثنا أبو رجاء العطاردي عن ابن عباس، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال (من كره من أميره شيئا فليصبر عليه. فإنه ليس أحد من الناس خرج من السلطان شبرا، فمات عليه، إلا مات ميتة جاهلية).



سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جسے اپنے حکمران کی کوئی بات ناگوار گزرے، وہ اس پر صبر کرے (یعنی بغاوت نہ کرے۔) جو شخص بھی حکمران کی اطاعت سے بالشت بھر بھی نکلے گا، وہ جاھلیت کی موت مرے گا۔"
(مسلم، كتاب الامارة، حديث 4791)



حکومت کی اطاعت اس کی غلامی کا نام نہیں ہے۔ ان احدیث کا یہ معنی نہیں ہے کہ حکومت کی برائیوں پر لوگ دم سادھ کر بیٹھے رہیں بلکہ ان برائیوں کو برائی سمجھنا اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کے خلاف آواز اٹھانا نیک لوگوں کی ذمہ داری ہے۔


حدثنا داود بن رشيد. حدثنا الوليد (يعني ابن مسلم). حدثنا عبدالرحمن بن يزيد بن جابر. أخبرني مولى بني فزازة (وهو زريق بن حيان)؛ أنه سمع مسلم بن قرظة، ابن عم عوف بن مالك الأشجعي، يقول: سمعت عوف بن مالك الأشجعي يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول (خيار أئمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم. وتصلون عليهم ويصلون عليكم. وشرار أئمتكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم. وتلعنونهم ويلعنونكم) قالوا قلنا: يا رسول الله! أفلا ننابذهم عند ذلك؟ قال (لا. ما أقاموا فيكم الصلاة. لا ما أقاموا فيكم الصلاة. ألا من ولى عليه وال، فرآه يأتي شيئا من معصية الله، فليكره ما يأتي من معصية الله، ولا ينزعن يدا من طاعة).
 (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4805)
سیدنا عوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا، "تمہارے بہترین حکمران وہ ہوں گے جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں۔ تم ان کے لئے دعا کرو اور وہ تمہارے لئے دعا کریں۔ تمہارے بدترین حکمران وہ ہوں گے جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں۔ تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ ہم نے عرض کیا، "ہم ایسے حکمرانوں کے خلاف بغاوت نہ کر دیں۔" فرمایا، "نہیں، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں۔ نہیں، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں۔ لیکن جب تم اپنے حکمرانوں میں اللہ تعالی کی کوئی نافرمانی ہوتی دیکھو تو اسے برائی ہی سمجھتے رہو البتہ اس کی اطاعت سے ہاتھ مت کھینچو (کیونکہ اس سے پہلے سے زیادہ بڑی برائی یعنی انارکی جنم لے گی۔)

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : صِنْفَانِ مِنْ أُمَّتِي لَنْ تَنَالَهُمَا شَفَاعَتِي : إِمَامٌ ظلُوْمٌ وَکُلُّ غَالٍ مَارِقٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِيْرِ وَالْأَوْسَطِ. وَقَالَ الْمُنْذَرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے دو قسم کے لوگوں کو ہرگز میری شفاعت حاصل نہیں ہوگی : ظالم حکمران اور دین کی حدوں سے نکلنے والا ہر شخص۔‘‘



اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری اور ہیثمی نے کہا ہے : اس حدیث کے رُواۃ ثقہ ہیں.

Quran & Bible -- Pharaoh & Professor Bucaille


Ramesses II is one of the more popular candidates for the Pharaoh of the Exodus mentioned in Quran & Bible both. His body was discovered in 1881 among a group of royal mummies that had been removed from their original tombs for fear of theft. Priests of the 21st Dynasty had reburied them in a cache at Deir al-Bahari on Luxor’s west bank.
.
Ramesses II was originally buried in the tomb KV7 in the Valley of the Kings but, because of looting, priests later transferred the body to a holding area, re-wrapped it, and placed it inside the tomb of queen Inhapy. Seventy-two hours later it was again moved, to the tomb of the high priest Pinudjem II. All of this is recorded in hieroglyphics on the linen covering the body. His mummy is today in Cairo's Egyptian Museum.
.
False and fictitious propaganda against Islam and its Prophet, by the Christian clergy and by biased Orientalists who misguided class of people could not believe that Quran was the only Scripture which had remained sacrosanct and free from all additions, alterations and interpolations and consequently, it still retained the purity to guide mankind in all ages, places and in every conceivable crisis.
.
When Francisco Mitra became the president of France in 1981, France requested the Egyptian government to host the mummy of Pharaoh for the purpose of running laboratory and archaeological examinations. Upon arrival royal attendants were there including the French president himself and all ministers who bowed in honor for the mummy.
.
The scientists were headed by Professor Maurice Bucaille. Scientists were trying to restore the mummy while Professor Maurice was mainly concerned with how did this mummy die! The final report of the scientists was released late at night which states that the remaining salt in the mummy is an overt evidence that it was drawn in the sea, and the body was rescued very shortly where it was immediately embalmed to be saved An amazing thing was still confusing Professor Maurice is that how could this body possibly be safer than any other mummy despite being taken out of the sea up until this time. Professor Maurice was writing his final report on what he thought would be a new discovery about saving Pharaoh's body immediately after his death and embalming it And there, someone whispered to him that Muslims claim to know something about the drowning of this mummy. Yet the Professor firmly denied such thing saying that it's impossible to discover this without the development of science and without using his high-tech and complicated laboratories and computers.
.
To his surprise, he was told that Muslims believe in a book called "Quran" and this Quran narrates the story of Pharaoh's drowning and ensures the safety of his body after his death as to be a Sign to mankind. The Professor couldn't believe his own ears and started to wonder: How can a book existed 1400 years ago speak about the mummy that was only found 200 years ago, in 1898?? How can that be possible while the ancient Egyptian heritage was discovered only a few decades ago and no one knew about it before?? The Professor sat down pondering on what he was told about the book of Muslims while his Holy Book narrates only the drowning of Pharaoh without saying anything about his body
"Is it possible that this mummy in front of me is the one who was chasing Moses??!!" "Is it possible that Muhammad knew this 1400 years ago??!!"
.
The Professor couldn't sleep that night till they brought him the Old Testament where he read: "the sea drowned Pharaoh and his army, no one else was left alive" He was surprised that the Holy Book didn't mention about the destiny of the body and that it will be saved When the scientists were done with the mummy, France retuned it to Egypt, but Professor Maurice couldn't rest for a moment since he was told that Muslims know about the safety of the body. So, he decided to travel and meet anatomy Muslim scientists and there he spoke about his discovery of the safety of the mummy after its death in the sea and so on.
.
One of the Muslim scientists stood up and simply opened the Quran and pointed to the Professor at one verse:
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
We shall preserve your body today that you may be a lesson for those who come after you; as most people neglect Our signs.
(Quran 10:92).
.
The Professor was struck when he read that and immediately stood in front of the crowd and said loudly: "I believe in Islam, I believe in Quran" Then he went back to France with a different face he traveled with and dedicated 10 years investigating the scientific discoveries and comparing them with the Quran and trying to come up with one scientific contradiction with the Quran. Finally he quoted one verse from the Quran to be his conclusion:
لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ
"No falsehood can approach it (this book) from before or behind it: it is sent down by One Full of Wisdom, Worthy of all praise"
(Quran 41:42)
.
In 1976, Bucaille published his book, The Bible, The Qur'an and Science which argued that the Quran contains no statements contradicting established scientific facts. Bucaille argued that the Quran is in agreement with scientific facts, while the Bible is not. He states that in Islam, science and religion have always been "twin sisters". According to Bucaille, there are monumental errors of science in the Bible and not a single error in the Quran. Bucaille's belief is that the Quran's descriptions of natural phenomena make it compatible with modern science. Bucaille concludes that the Quran is the Word of God. Bucaille argues that some of the most celebrated scientific discoveries in the 20th century, were described in detail and accuracy. Bucaille gives examples of astronomy, embryology, and multiple other subjects that had major advances in the 20th century.
.
"Bucailleism" is a term used for the movement to relate modern science with religion, and especially that of Islam. Since the publishing of The Bible, the Quran and Science, Bucaillists have promoted the idea that the Quran is of divine origin, arguing that it contains scientifically correct facts.
.
According to The Wall Street Journal, Bucailleism is "in some ways the Muslim counterpart to Christian creationism" although "while creationism rejects much of modern science, Bucailleism embraces it". It described Bucailleism as being "disdained by most mainstream scholars" but said it has fostered pride in Muslim heritage and played an important role in attracting converts.
.
The Quran and the Bible [Exodus 14:21-30 and Exodus 15:19-21] state that the Pharaoh was drowned in the sea. However, the Qur’an differs from the Bible and it makes a very unique statement that the body of the drowned Pharaoh was saved as a sign for future generations. The Quranic statement about rescuing Pharaoh’s body would be in total agreement with the fact that the body of Rameses II has survived in a mummified form.

Wednesday, April 8, 2015

Your Name Affects Your Behavior


Your Name Affects Your Behavior
Why, Susie Sells Seashells by the Seashore?━━━━━━━━━━━━━━━━━━Short answer is, your Name Affects your Behavior.“Research on unconscious self-enhancement – or what we call implicit egotism – suggests that people’s positive automatic associations about themselves may influence their feelings about almost anything that people associate with the self,” write researchers Brett W. Pelham, Matthew C. Mirenberg, and John T. Jones of the State University of New York at Buffalo in their 2002 report, “Why Susie Sells Seashells by the Seashore: Implicit Egotism and Major Life Decisions,” published in the Journal of Personality and Social Psychology.According to research on the concept, the letters of your name have been found to influence personal life decisions as significant as where you live, what you do for a living, even who you fall in love with, even your choice of a political candidate depends on the letters of your name.

Monday, March 30, 2015

Effects of Tasbeeh

Q) What are the effects of tasbeeh?
Ans) W salam...sir no rocket science is there to understand the effects of tasbi on you...
Let me clear you first, having more than enough money... comfort zone... wealth... luxurious life... they're not standards to determines ur effects of tasbi....
Life is not static...Money comes and goes...children come and go.. parent come and go...life is all about transitional period, you've to prepare urself to cope up all deficiencies in it...you've to give ur acceptance to God for very short period and you've to understand this fact nothin is absolute in life...only one thing is absolute that is God...
Against whole phenomenon above, only tasbi can help you to concentrate on and to focus on ur vantage point, and that is God... phir us ke bahd tasbi ke asraat sub se pehle aap ke dil pe hon ge...if ur heart is in peace then it means tasbi is working whether situation is tough or whole situation standing against you...but your heart will be so satisfied with God as if nothing left in ur life to fullfill it except the only one whom you remembered utmost... who generates ur thoughts n then he who refines them aswell...who is sitting very calm in depth of ur heart...ur top priority...
أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ Unquestionably, by the remembrance of Allah there is peace of heart... سورة الرعد : 28

Q) If someone feels that he is not coping with his current situation then should he increase the tasbeeh?
Ans) Sir, if i advise you u better increase this dua as much as you can....

اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ
O Allah, help me in remembering You, in giving You thanks, and worshipping You well. ]
(Sunan Abu Dawud)

when you finish ur tasbih then start asking this duah as a tasbih.

Don't You think?



When you learn something new, the structure of your brain changes.
After hitting every single fruitful thought, activity of 100 billion neurons & one trillion glial cells start exercising to make a better structure of ur brain. And this development of your brain keep going until your late 40's...

Think: Before It's Too Late....
But the question arises that does this process stops at late 40s if yes then why have we been asked to strive for knowledge till you can die?
And answer by محمد جنید أحمد goes like this 
Im not going to reply with short, why we have to strive for knowledge from cradle to grave, even-though i have simple answer of this query, when your brain start losing efficiency it doesn't mean, you are losing your whole Cognitive Brain...it is simple that less efficient brain brings less progress in brain development which leads to less cognition...and less cognition is still the cognition...

Now come to the lengthy answer, first of all you should need to understand that, some changes are inevitable, but we have to learn how would we have to manage those inevitable changes, which are pretty much certain in our upcoming lives....

Like the rest of your body, your brain changes with each passing year. From the time we are infants, our brains are adapting, learning, making memories and more. We become smarter and sharper, earning the wisdom that truly only comes with life experience. Once we hit our late twenties, the brain’s aging process begins and we begin losing neurons—the cells that make up the brain and nervous system. By our sixties, our brains have literally begun to shrink...this is what neuroscience explains...

But you have to learn how your brain changes as you age to get a better handle on what is happening in this magical part of your body.

First i'll start from very important part of our brain, which is called prefrontal cortex...Professor Sarah-Jayne Blakemore, a neuroscientist with the Institute of Cognitive Neuroscience at University College London says,

" The prefrontal cortex is the region at the front of the brain just behind the forehead, and is an area of the brain that undergoes the longest period of development. It is an important area of the brain for high cognitive functions such as planning and decision-making, and it is also a key area for social behavior, social awareness, for empathy and understanding and interacting with other people, and various personality traits. Prof. Blakemore said the prefrontal cortex “is the part of the brain that makes us human,” since there is such a strong link between this area of the brain and a person’s personality.
Prof. Blakemore said brain scans show the prefrontal cortex continues to change shape as people reach their 30s and up to their late 40s. "

Bottom line of above research is that Brain is not fully mature until 40s...same thing Allah mentioned in Quran
حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً
[He (Man) grows] until, when he reaches maturity and reaches the age of forty years,

(Al-Ahqaf : 15)

Age 40's-50's
----------
According to research in the British Medical Journal, From your mid 40s to late 50s, your reasoning skills slow. In a group of people who were first tested on various mental abilities when they were 45–49 years old, reasoning skills declined by 3.6 percent over 10 years.
The middle-age participants also experienced fading sharpness in memory and verbal fluency—the ability to say words quickly in a specific category.

Age 60's-70's
----------
According to researchers at the University of California, San Diego School of Medicine. in 60s, The brain has begun to shrink in size and, after a lifetime of gaining accumulated knowledge, it becomes less efficient at accessing that knowledge and adding to it. The greatest risk factor for Alzheimer’s is advancing age, and most individuals with the disease are 65 or older. Surprisingly, when Alzheimer’s hits people in their 60s and 70s, they show faster rates of brain tissue loss and cognitive decline compared to patients 80 years and older.

Age 70's-80
---------
in 70s and 80s, Your risk of developing Alzheimer’s increases with age, reaching 50 percent by age 85...

Crux of above stages Allah pointing out in Quran,

وَاللَّـهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
It is God who creates you, then makes you die; and some reach the age of dotage when Men forget those things which they had knowledge about them. God is indeed all-knowing and all-powerful.

(Surah An-Nahl : 70)

How can we boost our brain?
--------------------
1) Keep Educating yourself, for this you have to get out of the comfort zone to push and nourish your brain. Do anything from learning a foreign language, study new subjects and taking a different route to work. Such stretching is exactly what scientists say best keeps a brain in tune.

2) Exercise pumps blood to the brain and encourages the growth of new brain cells

3) Mentally stimulating activities may help reverse cognitive decline.

4) Invest in your bonds with friends and loved ones.

5) Eat & Drink in Moderation

These above precautions you may take them to help your reverse cognitive decline... you must have to keep in mind that some changes are inevitable...but you have to indulge in learning which will let you to manage inevitable changes in ur body...this is the actual learning we should keep getting it from cradle to grave...